کیا امریکہ اسلام دشمن ہے؟ ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
9 ستمبر 2010نائن الیون یعنی گیارہ ستمبر 2001 ء کے دہشت گردانہ حملوں کے 9 سال ممکمل ہونے سے چند روز پہلے امریکہ میں اسلام دشمن جذبات کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نزدیک ایک اسلامی ثقافتی مرکز کے قیام کے منصوبے اور امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چرچ میں گیارہ ستمبر کو قران کے نسخے نذر آتش کرنے کا مجوزہ پلان یقیناً تشویش کا باعث ہے تاہم اسے ڈرامائی شکل دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ ماننا ہے واشنگٹن میں ڈوئچے ویلے کے نامہ نگار ڈانیئل شیشکے وٹس کا۔ وہ تحریر کرتے ہیں:کیا امریکہ ’اسلام دشمن‘ ہے۔ یہ سوال اس وقت نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں اٹھایا جا رہا ہے۔ فلوریڈا کے ایک چرچ کے ایک فرقہ وارانہ سوچ کے حامل اور نفرت سے بھرپور تبلیغ کرنے والے ایک پادری کی طرف سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قران کے نسخے جلانے کے منصوبے نے چند مسلم ممالک میں امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی ہے اور وہاں امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
امریکہ، جسے مذہبی آزادی کا علمبردار ملک سمجھا جاتا ہے، اس وقت مذہبی عدم رواداری کے خطرات سے دو چار ہے اور گیارہ ستمبر 2001 ء کے ہولناک واقعے کی یاد میں منائی جانے والی تقریبات کی تیاریوں پر ان خطرات کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے امریکہ میں آخر ہوا کیا؟ وہ معاشرہ، جس میں کبھی مسلمانوں کے ساتھ بہت ہی سوچا سمجھا سلوک کیا جاتا تھا، یکدم ہی بدل گیا۔ کیا امریکہ جو بظاہرغیرملکیوں کے کامیاب انضمام کی ڈگر پر چل رہا تھا، اب اُس راستے کو چھوڑ چکا ہے؟ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی نیو یارک میں مسلمانوں کے ایک ثقافتی مرکز کے مجوزہ منصوبے کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کے ترجمانوں نے مذہبی رواداری کے مظاہرے کی اپیل کی ہے اور بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور خوف کو تشویشناک قرار دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن جیسے واشنگٹن حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس پر اظہار رائے کرتے ہوئے قرآنی نسخوں کو جلانے کے منصوبے کی سخت مذمت کی ہے۔ یہ سب کچھ جتنا بھی بد نما کیوں نہ ہو، اس صورتحال کو ڈرامائی بنانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ امریکہ میں مذہبی تعصب رکھنے والے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں ایسے متعصب عناصر کا نشانہ آئر لینڈ کا کیتھولک چرچ تھا، جو اب امریکی معاشرے کا جُزوِ لازم بن چکا ہے۔ خواتین کے حقوق کے آزاد خیال علمبردار خواتین کے اسقاط حمل کے حق کے بارے میں مسیحی انتہا پسند اور بنیاد پرستوں کے موقف کو پوری بیس ویں صدی کے دوران جھیلتے رہے ہیں اور آج تک جھیل رہے ہیں۔
اسی طرح امریکہ میں ایسی قوتیں موجود ہیں، جو مسلم برادری کو ایک مساوی مذہبی برادری کی بجائے مغرب کے خلاف سازش میں مصروف ایک سیاسی مذہبی برادری سمجھتی ہیں۔ گیارہ ستمبر 2001 ء کے دہشت گردانہ واقعات اور اُس کے 9 سال بعد ایسی قوتوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ امریکہ نے دو اسلامی ممالک میں جو دو جنگیں لڑی ہیں، اُن سے امریکہ میں آباد مسلمانوں کی زندگی بلاشبہ اور مشکل ہو گئی ہے۔ اِس کے باوجود جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اسلام مخالف رستے پر چل نکلا ہے، وہ غلطی پر ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی مشہور زمانہ ’قاہرہ تقریر‘ میں اسلام کی عظمت کو تسلیم کیا تھا اور تمام دنیا کے مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ امریکہ میں مذہبی نوعیت کے پُر تشدد واقعات میں کسی صورت اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ ایک مخصوص سطح پر رکا ہوا ہے۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے گیارہ ستمبر 2001 ء کے واقعات سے چند ہفتے قبل ایک مسجد کے اندر بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ’اسلام امن کا مذہب ہے‘۔ اُس وقت قدامت پسند امریکہ بُش کے ساتھ تھا۔ آج کل باراک اوباما کے دور حکومت میں دائیں بازو کے انتہا پسند پھر سے اسلام کے خلاف بلند آواز میں بیانات دے رہے ہیں۔ اسلام مخالف سوچ کا اظہار اُن کا محبوب ترین مخزن نمائش ہے۔
تحریر/ ڈانیئل شیشکے وٹس/ ترجمہ کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی