کینیا میں ملک کے پہلے جوہری پاور پلانٹ کی مخالفت کیوں؟
12 اکتوبر 2024کینیا کی حکومت ساحلی شہر کلیفی میں ملک کا پہلا جوہری پاور پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس سیاحتی مقام پر اس منصوبے پر عمل درآمد کے حوالے سے اسے تنقید اور مذمت کا سامنا ہے۔ آخر کیوں؟
کلیفی اپنے دلکش ساحلوں اور سیاحتی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ وہاں ایک ایسا جنگل بھی ہے جو بقا کے خطرے سے دوچار جانوروں اور پرندوں کا قدرتی مسکن ہے اور اقوام متحدہ کی ثقافتی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہے۔
ملکی دارالحکومت نیروبی سے تقریباﹰ 522 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس علاقے میں کینیا کی حکومت ہزار میگا واٹ کے ایک جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کا آغاز 2027ء سے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس پر 3.8 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ تعمیر کے بعد یہ پلانٹ 2034ء تک فعال ہو جائے گا۔
جوہری پلانٹ کی مخالفت
اس منصوبے کی تجویز پچھلے سال دی گئی تھی۔ تب سے اب تک اس علاقے کے رہائشی اس کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اس پلانٹ کی تعمیر سے ان پر اور ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی سلسلے میں متعدد احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا چکے ہیں، جن میں کچھ بار پر تشدد واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
ان ہی میں سے ایک مظاہرہ 'مسلم فار ہیومن رائٹس‘ ((MUHURI نامی تنظیم کی قیادت میں جمعہ کو ہوا، جس میں شرکاء نے کلیفی کے گورنر کے دفتر تک مارچ کیا اور جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کے خلاف ایک تحریری درخواست دی۔ اس دوران کچھ مظاہرین جوہری توانائی کی مخالفت میں نعرے بھی لگاتے رہے اور چند نے ''ستاکی نیوکلیئر‘‘ یعنی ''ہمیں جوہری (توانائی) نہیں چاہیے‘‘ کی عبارت والے بینر بھی اٹھا رکھے تھے۔
MUHURI سے وابستہ ایکٹیوسٹ فرانسس اوما نے خبر رساں ادارے دی ایسوسی ایٹڈ پریس سے اس بارے میں گفتگو کے دوران کہا کے اس مجوزہ جوہری پلانٹ کے نقصان اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''اس منصوبے کے کئی منفی اثرات ہوں گے۔ یہاں پچے پیدائش سے معذوری کا شکار ہو سکتے ہیں، مچھلیاں مر جائیں گی اور ہمارا ارابوکو سوکوکے جنگل، جہاں دیگر علاقوں سے چرند پرند آتے ہیں، ختم ہو جائے گا۔‘‘
جمعے کے مظاہرے میں کلیفی کے ایک رہائشی جمعہ سولوبو بھی موجود تھے، جنہیں اس سے قبل ایک احتجاج کے دوران پولیس نے مارا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ''اگر آپ ہمیں مار بھی ڈالیں، آپ ہمیں مار ہی ڈالیں، لیکن ہم اپنی کمیونٹی میں ایک جوہری پاور پلانٹ نہیں چاہتے۔‘‘
احتجاج میں شریک ایک ماہی گیر ٹموتھی نیاوا نے خدشہ ظاہر کیا کہ پلانٹ کی تعمیر سے علاقے میں مچھلیاں اور ان کے روز گار کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔
اس مظاہرے میں کینیا کی سینٹر فار جسٹس گورننس اینڈ اینوائرمینٹل ایکشن کی سربراہ فلس اومیدو بھی موجود تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کینیا کے مشرقی ساحلی علاقوں میں رہائشیوں کا بنیادی ذریعہ معاش وہاں کے قدرتی ماحول سے منسلک سیاحت ہے اور جوہری پلانٹ کی تعمیر سے ان کا روزگار ختم ہونے کا خطرہ ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ان کے ادارے نے پارلیمان میں ایک درخواست بھی جمع کرائی تھی، جس میں اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے ساتھ کہا گیا تھا کہ مقامی افراد کو پلانٹ کے لیے سائٹ کے انتخاب اور اس منصوبے کے بارے میں محدود معلومات ہی فراہم کی گئیں ہیں۔ اس میں ریڈیو ایکٹو مواد کے پھیلاؤ کی صورت میں صحت، ماحول اور سیاحت کو پہنچنے والے نقصانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس سلسلے میں کینیا کی جوہری انرجی کی ایجنسی Nupea کا موقف ہے کہ پلانٹ کی تعمیر میں ابھی کئی برس لگیں گے اور اس معاملے میں ماحولیات سے متعلق قوانین کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے حوالے سے عوام کی مناسب شمولیت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔
اس ایجنسی نے پچھلے سال جوہری پلانٹ کے ممکنہ اثرات کے بارے میں ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی، جس میں تحفظ ماحول کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں۔
م ا ⁄ ع ت (اے پی)