کینیڈین شہری کی سزائے موت، چینی عدالت نے اپیل مسترد کر دی
10 اگست 2021رابرٹ لائیڈ شیلنبرگ نامی کینیڈین شہری پر منشیات اسمگلنگ کا الزام نومبر سن 2014 میں لگایا گیا تھا۔ چینی حکام کے مطابق وہ چینی شہر ڈالیان سے آسٹریلیا منشیات اسمگل کرنے کی کوشش میں تھا کہ ان کے چینی مترجم نے اس کی مبینہ سرگرمیوں کی خبر پولیس کو فراہم کر دی۔ شیلنبرگ تھائی لینڈ فرار ہونے کی کوشش میں تھا کہ انہیں چینی پولیس نے گرفتار کر لیا۔
پانچ چینی کمپنیاں ملکی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں، امریکا
ماتحت عدالت کی ابتدائی سزا تبدیل
ڈالیان کی مقامی عوامی عدالت یا پیپلز کورٹ میں شیلنبرگ نے موقف اپنایا کہ اسے ایک مقامی ڈرگ اسمگلر شو چینگ نے پھنسوایا ہے اور اس کا منشیات کی اسمگلنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس نے خود کو بے گناہ اور محض ایک سیاح قرار دیا۔
بیس نومبر سن 2018 کو ڈالیان کی پیپلز کورٹ نے انہیں اسمگلنگ کے مبینہ الزام کے تحت پندرہ برس کی جیل کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ یوان کا جرمانہ اور ملک بدری کی سزا سنائی۔ لیاؤننگ صوبے کی اعلیٰ عدالت نے حکومتی اپیل میں استغاثہ کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے شیلنبرگ کو دی گئی سزا کا مقدمہ واپس ڈالیان عدالت کو بھیج دیا کہ وہ کارروائی دوبارہ مکمل کرے اور سزا پر نظرثانی بھی کی جائے۔
چودہ جنوری سن 2019 کو ڈالیان کی پیپلز کورٹ نے مقدمے پر نظرثانی کی سماعت شروع کی اور اس میں سابقہ سزا کو ختم کرتے ہوئے اسے موت کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی سزا کے خلاف دائر اپیل اب مسترد ہو گئی ہے۔
شیلنبرگ کی اپیل مسترد اور کینیڈین ردعمل
چین میں کینیڈا کے سفیر ڈومینیک بارٹن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپیل مسترد ہونے کے بعد ان کی رابرٹ شیلنبرگ سے بات چیت ہوئی اور وہ کافی حوصلے میں تھا۔ کینیڈین اخبار دا گلوب اینڈ میل کے مطابق سفیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ شیلنبرگ کا مقدمہ جیو پولیٹیکل عمل کا حصہ ہے اور اس کا کینیڈین شہر وینکوور میں رونما ہونے والے واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ وینکوور کے واقعات سے اس کی مراد ہواوے کی اہلکار مینگ وانژُو کی گرفتاری اور ضمانت سے ہے۔
جاسوسی کا الزام، چین میں دو کینیڈین شہریوں کے خلاف فرد جرم عائد
بارٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیلنبرگ کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس مقدمے میں کینیڈین شہری کے وکیل ژانگ ڈونگشو نے اخبار دا گلوب اینڈ میل کو بتایا کہ انہیں عدالتی فیصلے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی اور وہ اسی کی توقع کر رہے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ شیلنبرگ کی سزا کی حتمی منظوری ابھی چینی سپریم کورٹ نے دینی ہے۔ ڈونگشو کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل سے سزائے موت کے ختم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔
شیلنبرگ کی سزائے موت اور ہواوے
منشیات کے الزام میں شیلنبرگ کو سزائے موت ایسے وقت میں سنائی گئی جب پہلی دسمبر سن 2018 کو کینیڈین حکام نے بڑی بین الاقوامی چینی ڈیجیٹل اور موبائل ساز کمپنی ہواوے کی چیف فنانشل افیسر مینگ وانژُو کو امریکی درخواست پر حراست میں لیا تھا۔ امریکا نے مینگ وانژُو پر بینک فراڈ اور دوسرے سازشی الزامات کے تناظر میں وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں اور اس بنیاد پر کینیڈا سے انہیں امریکا کے حوالے کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔ ایک کینیڈین عدالت نے ان کی امریکا منتقلی کی درخواست منظور کر لی اور اب حتمی فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔
ہواوے کی اعلیٰ خاتون افسر کی ضمانت پر رہائی
ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ شیلنبرگ کو سزائے موت مینگ وانژو کی گرفتاری کا ایک جواب تھا۔ چینی حکومت نے ہواوے کی چیف فنانشل افیسر کی حراست پر سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور اسے اپنے ملک کے خلاف ایک عالمی سازش کا حصہ بھی قرار دیا۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں شدید گراوٹ پیدا ہو چکی ہے۔
ع ح/ک م (اے پی، روئٹرز)