گوادر بندرگاہ: پاکستان مزید چینی مدد کا طلبگار
17 دسمبر 2010پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمعہ کے روز وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے ہم منصب وین جیا باؤ سے مزید تعاون کی درخواست کریں گے۔ وزیراعظم گیلانی کا کہنا ہے،’ ہم چینی وزیراعظم وین جیا باؤ کے دورے کے دوران ان سے گوادر پورٹ کو کار آمد بنانے کے طریقہ کار پر بات چیت کریں گے۔‘
لیکن اس بندرگاہ کےانتظامی اورآپریشنل امور کا ٹھیکہ پہلے ہی 40 برس کےلئے سنگاپورکی ایک سرکاری کمپنی PSA کودے دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلٰی کا کہنا ہے کہ پی ایس اے کو دیا گیا ٹھیکہ ’یک طرفہ‘ فیصلہ ہے۔ اس معاہدے کی منسوخی کےلئےایک کیس پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔
وزارت پورٹ اینڈ شیپنگ کے ایک اعلٰی عہدیدار نے خبررساں ادارے روئٹر کو بتایا ہے،’ ہم اس وقت کوئی بھی فیصلہ نہیں لے سکتے، کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن ظاہر ہے چین کو اس بندرگاہ کا ٹھیکہ دینا ایک اچھی بات ہے۔‘
ایک اوراعلٰی عہدیدارکا کہنا تھا کہ اگرسپریم کورٹ سنگا پور کی سرکاری کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیتی ہے تو ہمیں یہ ٹھیکہ چین کو دینا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں،’ چین پاکستان کا ایک قریبی دوست ہے۔ وہ اس بندرگاہ کو چلانے کی مہارت بھی رکھتا ہے اور ارادہ بھی۔ چین کو انتظامی امور کا ٹھیکہ دیا جانا ایک بہتر انتخاب ہے۔‘
پاکستان اپنی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان چین کے علاوہ وسطی ایشائی ملکوں اورافغانسان کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تین بڑی بندرگاہیں موجود ہیں۔ گوادر بندرگاہ بلوچستان میں جبکہ باقی دوکراچی سے 450 کلومیٹر دورمشرق میں واقع ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ