گوانتامو کے 10 سابق قیدی عمان پہنچ گئے
14 جنوری 2016عمان کی نیوز ایجنسی ONA نے ملکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ عمان نے ان افراد کو ’’امریکی انتظامیہ کی طرف سے ملنے والی ایک درخواست کے ردعمل کے طور پر قبول کیا ہے، جس کا مقصد گوانتانامو بے میں زیر حراست لوگوں کا مسئلہ حل کرنا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
امریکا گوانتانامو کے حراستی مرکز میں موجود قیدیوں کو دیگر ممالک کو منتقل کر رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے کیوبا میں قائم اس جیل کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ گوانتامو کے اس مرکز کے قیدیوں کی تعداد میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض قیدیوں کو ان کے اپنے ہی ملکوں میں بھیجا جا رہا ہے۔
رواں ہفتے گوانتانامو کے ایک قیدی کو سعودی عرب بھی واپس بھیجا گیا ہے جہاں وہ ملک کی طرف سے عسکریت پسندوں کے لیے چلائے جانے والے بحالی کے ایک پروگرام میں شریک ہو گا۔ نو جنوری کو گوانتانامو کے کویت سے تعلق رکھنے والا آخری قیدی بھی 14 برس کے بعد وطن لوٹا تھا جہاں اس کے خاندان نے اسے خوش آمدید کہا۔
گزشتہ برس نومبر میں پینٹاگون کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ گوانتامو سے پانچ قیدیوں کو متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا تھا۔ اس وقت اس حراستی مرکز میں 40 سے زائد قیدی موجود ہیں اور پینٹاگون ایسے ممالک کی تلاش میں ہے جو انہیں اپنے ہاں قبول کرنے کو تیار ہوں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق یمن سے ہے جو القاعدہ کی خطرناک ترین شاخ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ملک چونکہ خانہ جنگی کا شکار ہے اسی باعث یمنی قیدیوں کو ان کے اپنے ملک بھیجنا ممکن نہیں ہے۔
اس بات کے شواہد ملنے کے باوجود کہ گوانتانامو کے بعض سابق قیدی دوبارہ عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں، امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ اس جیل کو بند کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ امریکی کانگریس جہاں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے، گوانامو کو بند کرنے کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہے۔
2009ء میں امریکی صدر بننے والے باراک اوباما نے گوانتانامو جیل کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ جیل نائن الیون حملے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش انتظامیہ کی طرف سے قائم کی گئی تھی۔ اس جیل میں قید کیے جانے والوں کو ’دشمن جنگجو‘ قرار دیا جاتا ہے اور انہیں امریکا میں موجود قانونی حقوق تک رسائی نہیں دی جاتی جس کا مطلب ہے کہ انہیں مقدمے کی کارروائی کے بغیر ہی برسوں تک قید رکھا جا سکتا ہے۔