گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا روکنے کی درخواست مسترد
26 فروری 2024الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم فریق کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو پیر 26 فروری کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ "کیس سے متعلق تمام ریکارڈز اور متعلق فریقوں کے دلائل سننے کے بعد ہائی کورٹ کے پاس وارانسی ضلع جج کے سنائے گئے فیصلے پر روک لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔"
ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، "عدالت نے عرضی خارج کردی ہے۔ پوجا پر کوئی روک نہیں ہے۔ پوجا مستقل طورپر چلتی رہے گی۔" انہوں نے مزید کہا کہ "مسلم فریق چاہے تو فیصلے پر نظر ثانی کے لیے دوبارہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے، لیکن پوجا جاری رہے گی۔"
بھارت: گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت پر مسلمانوں کا شدید ردعمل
مسلمانوں نے ہائی کور ٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
گیان واپی مسجد کا نظم ونسق سنبھالنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے اس معاملے پر پہلے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ نے انہیں الہ آباد ہائی کورٹ جانے کا مشورہ دیا تھا۔
انتظامیہ کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یاسین نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تحمل سے کام لینے کا بھی مشورہ دیا۔
مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت
خیال رہے کہ 31 جنوری کو وارانسی ضلع مجسٹریٹ کی جانب گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجاز ت دینے کے فوراً بعد ہی مورتی پوجا شروع کردی گئی تھی جو مسلسل جاری ہے۔
وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ نے اپنی مدت کار کے آخری دن اہم فیصلہ سناتے ہوئے ہندو فریق کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دے دی تھی۔ درخواست گزار شیلیندر کمار پاٹھک کا دعویٰ ہے کہ ان کے نانا سوم ناتھ ویاس نے دسمبر 1993 تک اس تہہ خانے میں پوجا کی تھی۔
مسلمان اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر نہ تو ویاس خاندان نے اور نہ ہی کبھی کسی نے پوجا کی ہے۔ وہ 1993 میں وہاں پوجا بند کرانے کے دعوے کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ وہ ہندووں کے اس دعوے کو بھی نہیں مانتے کہ تہہ خانے میں مبینہ طورپر 100 فٹ اونچا خودساختہ جیوتی لنگ موجود ہے۔
مسجد یا مندر؟ تاریخی گیان واپی مسجد کے مستقبل کا فیصلہ
ہندووں کا دعویٰ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے سن 1664 میں اس مندر کو منہدم کروادیا تھا اور ا س کی جگہ ایک مسجد تعمیر کرائی۔ گیان واپی علاقے میں ہونے کی وجہ سے اسے گیان واپی جامع مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر سے بھی تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے سے مسلمان اس مسجد میں نماز پڑھتے آرہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہبی عمارتوں سے متعلق1991 کا قانون بھارت کی آزادی یعنی 1947 سے قبل کے مذہبی مقامات کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
مسلمانوں کو تشویش
مسلم فریق نے ضلع مجسٹریٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم آج انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔
ایس ایم یاسین نے کہا کہ انہیں اب بھی عدالت پر بھروسہ ہے اور مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
گیان واپی مسجد تنازعہ میں عدالت نے کیا حکم دیا؟
بھارت میں بیشتر مسلمانوں کا احساس ہے کہ گیان واپی جامع مسجد کا حال بھی شاید ویسا ہی ہو جو ایودھیا کی بابری مسجد کا ہوا تھا۔ اس وقت کی ریاست اترپردیش کی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دے کر کہا تھا کہ وہ بابری مسجد کو ہر حال میں بچائے گی۔
لیکن چھ دسمبر کو شرپسندوں نے دن کے اجالے میں مسجد کو منہدم کردیا تھا۔ اور ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ نے منہدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔
تقریباً ایک ماہ قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس "عظیم الشان" رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔