ہائبرڈ گندم سے خوراک کی کمی کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟
26 دسمبر 2022کرہ ارض پر انسانی آبادی میں مسلسل تیز رفتار اضافے اور اہم زرعی اجناس کی ترسیل میں کمی کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے زرعی اجناس کے بیج تیار کرنے والی دنیا کی بڑی کمپنیاں ایسی اقسام کی تیاری میں مصروف ہیں، جن سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔
پاکستان میں تیزی سے پھیلتی پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
سِنجَینٹا (Syngenta) کا شمار دنیا کی بیج تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور یہ کمپنی چین کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی طرف سے اگلے سال پانچ ہزار ایکڑ سے لے کر سات ہزار ایکٹر رقبے تک گندم کی ایسی نئی قسم کاشت کی جائے گی، جو ہائبرڈ گندم کہلاتی ہے۔ یہ رقبہ امریکہ میں گندم کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والے مجموعی رقبے کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ جرمن کمپنیاں باسف ایس ای (BASF SE) اور بائر اے جی (Bayer AG) بھی اس تیاری میں ہیں کہ رواں دہائی کے اختتام تک ہائبرڈ گندم کی اپنی اقسام متعارف کرا سکیں۔
ہائبرڈ گندم کیسے تیار کی جاتی ہے؟
زرعی تحقیق کرنے والے ماہرین ہائبرڈ گندم اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ عام گندم کے پودوں کی اپنی زیرہ پوشی یا pollinate کرنے کی قدرتی صلاحیت اس طرح ختم کر دیتے ہیں کہ کھیتوں میں مادہ پودوں کی زیرہ پوشی ایک دوسری قسم کے نر پودوں سے کی جاتی ہے۔ اس طرح گندم کا جو نیا اور منفرد بیج اس زرعی جنس کی دو مختلف انواع کے اختلاط سے تیار ہوتا ہے، وہ ہائبرڈ کہلاتا ہے۔
بھارت میں کسان اتنی بڑی تعداد میں خودکشی کیوں کر رہے ہیں؟
یوں تیار کیے جانے والے بیج گندم کی دو مختلف اقسام کے امتزاج کے باعث نہ صرف زیادہ پیداوار دیتے ہیں بلکہ ان میں اپنی پچھلی نباتاتی نسل کے مقابلے میں ناموافق ماحولیاتی اور موسمیاتی حالات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
کسی بھی زرعی جنس کی ہائبرڈ قسم تیار کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو مختلف نباتاتی انواع کی جملہ مثبت خصوصیات یکجا کر دی جاتی ہیں۔
اس عمل کا تاہم ایک قدرتی نقصان بھی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب گندم کی کسی ایک قسم میں نر اور مادہ پودوں کے مابین زیرہ پوشی کا عمل ہواؤں کی مدد سے قدرتی طور پر انجام پاتا ہے تو سبھی مادہ پودوں کی پولینیشن ہو جاتی ہے۔
پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت
لیکن اگر یہی پولینیشن یا زیرہ پوشی انسانی مداخلت کے نتیجے میں اور غیر قدرتی انداز میں کی جائے، تو کئی مادہ پودوں کی پولینیشن نہیں ہو پاتی۔ لیکن ماہرین اس کا بھی کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
ہائبرڈ فصلیں اب تک کس حد تک زیر استعمال؟
دنیا کے مختلف ممالک میں کسان کم از کم مکئی کی ہائبرڈ قسم تو 1930 کی دہائی سے اگا رہے ہیں۔ یوں اس فصل کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کے مختلف نباتاتی بیماریوں یا نقصان دہ کیڑوں کا شکار ہو جانے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اب تک جن سبزیوں کی ہائبرڈ اقسام اگانے کا طریقہ بھی رائج ہو چکا ہے، ان میں پیاز، پالک اور ٹماٹر شامل ہیں۔
پیشاب سے کاشت کردہ فصلیں، آپ ایسی خوراک کھانا پسند کریں گے؟
ہائبرڈ گندم کے بیج تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کام کے لیے ہائبرڈ مکئی اور ہائبرڈ جو تیار کرنے کے حوالے سے اپنے اسی تجربے کو استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 1930 کی دہائی کے مقابلے میں 1990 کے عشرے تک مکئی کی پیداوار میں 600 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
امریکی محکمہ زراعت کے مطابق مکئی کی پیداوار میں چھ گنا تک کا حیران کن اضافہ جزوی طور پر ہائبرڈ مکئی تیار کرنے سے بھی ممکن ہوا جبکہ اسی عرصے میں گندم کی پیداوار میں بھی تقریباﹰ اڑھائی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔
ہائبرڈ گندم کے مارکیٹ میں آنے میں تاخیر کیوں؟
مکئی اور جو کے مقابلے میں ہائبرڈ گندم کے عالمی منڈیوں میں تجارت کے لیے پہنچنے میں مقابلتاﹰ کافی تاخیر اس لیے ہوئی کہ ہائبرڈ گندم کی تیاری زیادہ پیچیدہ اور کافی مہنگا عمل ہے۔
ہائبرڈ فصلوں کی تیاری کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے لیے متعلقہ فصل کے پودوں میں کوئی جینیاتی تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔ اس کے برعکس قانوناﹰ 'جین موڈیفائیڈ آرگنزم (GMO) یا 'جینیاتی تبدیلیوں والا جاندار‘ کے لیبل سے بچنے کے لیے پیداوار میں اضافے کے لیے ہائبرڈ انواع تیار کی جاتی ہیں۔
عرب دنیا میں بھوک بڑھ رہی ہے، اقوام متحدہ
جینیاتی تبدیلیوں کے بعد تیار کی جانے والی مکئی اور سویا کی اقسام 1996ء میں تیار کی گئی تھیں اور انہیں جانوروں کی خوراک، حیاتیاتی ایندھن اور کوکنگ آئل جیسی مصنوعات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ زرعی اقسام دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ، برازیل اور اجنٹائن میں وسیع تر رقبے پر اگائی جانے لگی تھیں۔
جینیاتی تبدیلیوں والی گندم کی وسیع تر تجارتی پیمانے پر کاشت آج تک اس لیے رواج نہ پا سکی کہ اس بارے میں صارفین میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے تھے۔ خاص طور پر یہ خدشات کہ ایسی گندم کے استعمال سے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی زرعی اجناس میں سے ایک ہے، عام انسانوں میں ممکنہ طور پر خاص طرح کی الرجی اور دیگر طبی مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔
یوکرینی جنگ اور زرعی اجناس، پانچ اہم حقائق
امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں پارک ریور کے مقام پر ہینکی سیڈ کمپنی کے مالک ڈیو ہینکی کہتے ہیں، ''جینیاتی تبدیلیوں والی زرعی پیداوار کی عام صارفین میں مخالفت کے باعث یہ امکان زیادہ ہے کہ صارفین ہائبرڈ فصلوں کو زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ پبلک کی عمومی سوچ یہی ہو گی۔‘‘
ہائبرڈ گندم کے ممکنہ فوائد
ارجنٹائن کی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی Bioceres جینیاتی طور پر ترمیم شدہ ایسی گندم کی تیاری پر کام کر رہی ہے، جو خاص طور پر خشک سالی کے اثرات کا بہت اچھی طرح مقابلہ کر سکے گی۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وقت گزرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید ہوتے جانے کے ساتھ ساتھ عام صارفین میں جینیاتی تبدیلیوں والی فصلوں کی تجارتی پیداوار کو قبول کرتے جانے کا رجحان بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔
فوڈ سکیورٹی، متبادل گندم مدد گار ہو سکتی ہے
دوسری طرف کئی دیگر کمپنیاں مختلف جغرافیائی حالات کے لیے مختلف اقسام کی بائبرڈ گندم کی تیاری پر بھی مسلسل کام کر رہی ہیں۔ جرمن کمپنی باسف کا کہنا ہے کہ وہ گندم کی جو ہائبرڈ قسم تیار کر رہی ہے، اس کی خاص بات ایک ایسی نباتاتی بیماری کا کامیابی سے مقابلہ کرنا ہے، جو Fusarium head blight کہلاتی ہے اور گندم کی پیداوار بہت کم کر دیتی ہے۔
مستقبل قریب سے وابستہ امیدیں
بائبرڈ گندم کی تیاری کے سلسلے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اتنی پیش رفت بہرحال دیکھنے میں آ چکی ہے کہ اب زرعی سائنس دان مستقبل قریب کے حوالے سے کافی پرامید ہیں۔
گندم کی جنگ: دنیا میں شدید بھوک کے خدشے میں اضافہ
بہت بڑی جرمن ٹیکنالوجی کمپنی باسف کے زرعی مسائل کا حل تلاش کرنے والے ذیلی ادارے باسف اے ایس کے تحقیق و ترقی کے شعبے کے سربراہ پیٹر ایکیس کہتے ہیں، ''ہائبرڈ فصلیں تیار کرنا ایک بہت ہی پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے۔ تاہم اس شعبے میں جینیاتی سائنس اور بریڈنگ ٹیکنالوجیز کے شعبوں میں حالیہ برسوں میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ اب بڑے بڑے چیلنجز پر قابو پا لینا ممکن نظر آنے لگا ہے۔‘‘
م م / ش ر (روئٹرز)