ہانگ کانگ: جمہوریت نواز میڈيا مغل نے عدالت میں کیا کہا؟
20 نومبر 2024ہانگ کانگ کی سب سے بااثر جمہوریت نواز شخصیات میں سے ایک جمی لائی بدھ کے روز قومی سلامتی سے متعلق معروف متنازعہ مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا موقف بیان کیا۔
جمہوریت کے حامی اور ہانگ کانگ کی بڑی کاروباری شخصیت جمی لائی نے عدالت کو بتایا کہ سن 1989 کے تیانمین اسکوائر پر مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد میڈیا کے کاروبار میں اس لیے داخل ہوئے تاکہ وہ بھی "آزادی کی فراہمی میں حصہ لے سکیں۔"
ہانگ کانگ: قومی سلامتی کیس میں 45 کارکنوں کو جیل
ان پر قومی سلامتی کے قانون کے تحت غیر ملکی قوتوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام ہے، جس میں انہیں عمر قید کی بھی سزا ہو سکتی ہے۔ اسی مقدمے میں گواہی دینے کے لیے وہ پیش ہوئے اور کہا، "جتنا زیادہ آپ باخبر ہوں گے، اتنا ہی آپ آزاد ہوں گے۔"
واضح رہے کہ 76 سالہ جمی لائی نے ہانگ کانگ میں ایک روزنامہ 'ایپل ڈیلی' کا آغاز کیا تھا، جو جمہوریت نواز قدروں کا ضامن تھا۔ اس اخبار کو سن 2021 میں بند کر دیا گیا اور ان پر غیر ملکی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
اس کیس کا تعلق اخبار کے ان مضامین سے ہے، جس میں سن 2019 میں ہونے والے جمہوریت نواز بڑے مظاہروں کی حمایت کی گئی تھی اور اس تعلق سے بیجنگ کی قیادت پر نکتہ چینی بھی کی گئی تھی۔
ہانگ کانگ: عدالت نے دو صحافیوں کو بغاوت کا مجرم قرار دے دیا
جمی لائی دسمبر 2020 سے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور جیل کے اندر ان کی صحت سے کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے، تاہم عدالت میں گواہی دینے کے دوران انہوں نے ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں کیا، جس سے لگتا کہ انہیں طبی مسائل کا سامنا ہے۔
البتہ ان کے بیٹے سبسٹیئن نے حال ہی میں کہا تھا کہ جیل میں ان کے والد کے ساتھ "غیر انسانی" سلوک ہوتا ہے۔
بنیادی قدر 'جمہوریت کا حصول'
لائی نے اپنے اخبار سے متعلق عدالت کو بتایا کہ "ایپل ڈیلی کی بنیادی اقدار حقیقت میں وہی تھیں، جو ہانگ کانگ کے لوگوں کی بنیادی اقدار ہیں۔ قانون کی حکمرانی سمیت آزادی، جمہوریت کا حصول، اظہار رائے کی آزادی، مذہب کی آزادی، اجتماع کی آزادی وغیرہ۔"
ہانگ کانگ: جمہوریت نواز کارکنان کو مجرم قرار دے دیا گیا
انہوں نے کہا کہ وہ تشدد کی مخالفت کرتے ہیں اور ہانگ کانگ کی آزادی کے بھی حامی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو "سوچنا بھی پاگل پن والی بات" ہے۔
عدالت میں لائی کی پیشی اس فیصلے کے ایک دن بعد ہوئی ہے، جس میں ہانگ کانگ کے اب تک کے سب سے بڑے قومی سلامتی کے مقدمے میں 45 جمہوریت نواز کارکنوں کو بغاوت کے الزام میں جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔
ہانگ کانگ: قومی سلامتی قوانین کو سخت کرنے پر زور
کیس میں بین الاقوامی دلچسپی
بدھ کے روز کی اس سماعت کے دوران امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ اور آئرلینڈ کے سفارت کار بھی عدالت میں موجود تھے۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ لائی کی رہائی ان کی حکومت کی "ترجیح" ہے۔ واضح رہے کہ لائی ایک برطانوی شہری بھی ہیں۔
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران لائی کی حالت زار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 76 سالہ شخص کی آزادی "آسان ہو گی" اور انہیں "سو فیصد یقین ہے کہ وہ اسے پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔"
ہانگ کانگ میں سخت پابندیوں کے تحت مظاہرین کی واپسی
بدھ کے روز کمرہ عدالت میں لائی سے جب سن 2019 کے دوران ٹرمپ انتظامیہ اور دیگر غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ ان کے رابطوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے یہ بات تسلیم کی اس وقت انہوں نے نائب امریکی صدر مائیک پینس سے ہانگ کانگ کی حمایت میں کچھ کہنے کے لیے کہا تھا۔
تاہم انہوں نے وضاحت کی انہوں نے مائیک پینس سے کارروائی کرنے کے لیے نہیں کہا تھا کیونکہ یہ ان کے "بس کے باہر" کی بات تھی۔ لائی نے بتایا کہا کہ انہوں نے کبھی بھی ٹرمپ کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ طور پر بات چیت نہیں کی۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)