’ ہزاریہ اہدف ‘ 842 ابھی بھی بھوک کا شکار
8 جولائی 2014ہزاریہ اہداف کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انتہائی غربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق آج ترقی پذیر ممالک کی آبادی کے پانچویں حصےکو 1.25 ڈالر یومیہ میں اپنا گزر بسر کرنا پڑتا ہے جبکہ 1990ء میں ان ممالک کی تقریباً پچاس فیصد آبادی کو ان حالات کا سامنا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ نتائج اطمینان بخش نہیں ہیں کیونکہ یہ پیش رفت دنیا کے ہر خطے میں متوازی نہیں ہے۔ ہزاریہ اہداف کے حصول میں ہونے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کے اعداد و شمار پر ماہرین مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
جرمن تنظیم ہائنرش بول فاؤنڈیشن کی باربرا اُنمؤزگ ’ Barbara Unmüßig ‘ کہتی ہیں کہ افریقہ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں بھوک اور غربت کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔ ’’ یہ بہت ہی اہم ہے کہ افریقہ میں خام مال کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کو اگر خطے میں غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے اثرات ترقی کے لیے دی جانے والی امداد سے زیادہ وسیع اور موثر ہوں گے‘‘۔
باربرا انمؤزگ کا مزید کہنا ہے کہ بھوک اور غربت کے خلاف پیش رفت کا تعلق چین سے ہے کیونکہ وہاں کی آبادی کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب صحارا اور جنوب مشرقی ایشیا میں2015ء تک غربت اور بھوک کو نصف نہیں کیا جا سکا ہے۔ ابھی بھی دنیا بھر میں 842 ملین افراد کو انتہائی بھوک کا سامنا ہے۔
جرمنی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ’ UNDP ‘ کے سربراہ رچرڈ ڈِکٹس ’ Richard Dictus‘ نے 2014ء کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2015ء تک تمام وسائل اور قووتوں کو یکجا کرتے ہوئے استعمال میں لانا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہزاریہ اہداف انسانی زندگی کو بچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملیریا اور تپ دق کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کارروائیوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق2000ء سے 2012ء کے درمیان ملیریا کے شکار تقریباً 3.3 ملین افراد کو موت کے منہ سے بچایا گیا ہے اور ان میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ اس سلسلے میں مچھر دانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سب صحارا کے علاقے میں 2004ء اور 2013ء کے درمیانی عرصے میں سات سو ملین مچھر دانیاں تقسیم کی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2015ء کے بعدکے اہداف کا دوبارہ سے تعین کرنے کے لیے کا م کیا جا رہا ہے۔ اس عالمی ادارے کے اہلکار رچرڈ ڈکٹس کے بقول مستقبل میں آٹھ ارب کی آبادی کے لیے تیار کی جانے والی اس منصوبہ بندی کے لیے نئی سوچ اور جدت کی ضرورت ہے۔ ڈکٹس کے مطابق نئی پالیسی واضح اور آسان ہونی چاہیے اور اس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کے معاملے پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔