چونکہ میں نے دارالحکومت میں ایک دہائی سے زائد عرصہ سے سیاسی گلیاروں کو بطور صحافی کور کیا ہے، اندر کی بات بتاوٗں، کہ چاہئے کوئی بھی حکومت ہو، یہ مسلم وزیر میڈیا کے ڈارلنگ ہوتے تھے۔ کیونکہ دیگر وزراء کے برعکس وہ صحافیوں کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھتے تھے اور اکثر أوقات کابینہ کی خبریں وغیرہ کے لیے سورس کا بھی کام کرتے تھے۔
ایک وجہ ان کی میڈیا کے ساتھ دوستی کی شاید یہ بھی تھی، کہ عوامی لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ان کا صحافیوں کے ساتھ مراسم رکھنا اور ان کے ذریعے خبروں میں رہنا ضروری ہوتا تھا۔ ان کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ چاہے بھارتیہ جنتا پارٹی کے شاہنواز حسین، سکندر بخت، مختار عباس نقوی ہو یا کانگریس کے سلمان خورشید، جعفر شریف، سی ایم ابراہیم، عبدالرحمان انتولے یا دیگر مسلم وزراء ان کی میزبانی کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
عید کے موقعوں پر شاہنواز حسین کی پرتکلف بریانی اور سلمان خورشید کے بنگلہ پر ہر سال بہرائچ سے آئے آموں کی دعوت کا تو نہ صرف صحافیوں کو بلکہ دہلی کے سوشل سرکلز کو انتظار رہتا تھا۔ اسی طرح جعفر شریف جب ریلوے کے وزیر تھے، ان کی إفطار پارٹیاں تو مثالی ہوتی تھیں۔ بس مسلمان وزراء میں جو خاص طور پر کشمیر سے آتے تھے، چاہے غلام نبی آزاد، سیف الدین سوز، ڈاکٹر فاروق عبداللہ یا ان کے فرزند عمر عبداللہ کے ساتھ شکایت تھی، کہ ان کا ہاتھ تنگ رہتا تھا اور وہ دیگر مسلم وزراء کی طرح فیاضی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اور ایک خول میں رہتے تھے۔ جس طرح دیگر مسلم وزراء سخاوت میں مشہور تھے، کشمیر کے ان وزراء نے دہلی میں کنجوسی میں نام کمایا تھا۔ بس مفتی محمد سعید ہر سال کشمیر وازوان چند چنیندہ صحافیوں کو کھلاتے تھے۔ عام میڈیا سے وہ بھی دور ہی رہتے تھے۔
مگر اب یہ پارٹیاں اور مسلم وزراء کے ساتھ ملاقاتیں دہلی کے سوشل سرکل میں یادگار اور خواب ہی رہ گئی ہیں۔
آزادی کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ بی جے پی کے آخری مسلم چہرے مختار عباس نقوی کی بطور ممبر پارلیمنٹ مدت ختم ہونے کے بعد ان کو وزرات سے حال ہی میں استعفیٰ دینا پڑا۔ گو کہ ملک میں ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی دوسو ملین سے زائد ہے، وزارت میں ان کی نمائنگی نہ ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت آجکل کس صورت حال سے دوچار ہے۔ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمائندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی مَحض 5 فیصد ہی ہے۔
جب نقوی کی میعاد ختم ہو رہی تھی، سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ شاید وہ دوبارہ راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہو جائیں گے۔ جب ان کو راجیہ سبھا کےلیے دوبارہ منتخب نہیں کیا گیا، تو بتایا گیا کہ ان کو صدر یا نائب صدر کے عہدے کےلیے تیار کیا جا رہا ہے، تاکہ حالیہ عرصے میں ملک میں مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے پر بیرون ملک، خاص طور پر عرب ممالک میں جس طرح مودی حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی بھر پائی ہو سکے۔
خیر بھارتی پارلیمان کے حکمران بنچوں پر اب کوئی مسلم آواز نہیں ہے۔ یہ صرف دہلی کے پاور گلیاروں کا حال نہیں ہے، بلکہ پچھلے آٹھ سالوں سے صوبوں میں بھی مسلم نمائندگی کم ہو رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت والے 16 صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا 19.26 فیصد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔
ملک میں سب سے زیادہ اسمبلی سیٹیں اتر پردیش میں ہیں اور ایک دہائی پہلے تک اتر پردیش میں تمام سیکولر سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی فائدے کے لیے مسلمانوں کو نمائیندگی دیتی تھیں۔ بھارت میں صوبائی اسمبلیوں میں کل 4121 نشستیں ہیں۔ ان میں صرف 236 مسلمانوں اراکین ہیں۔
بھارت کے 28 صوبوں میں اسوقت 530 وزراء ہیں اور ان میں صرف 19 مسلمان ہیں۔ 75 سالوں میں بھارت کی سیاسی ذہنیت نے بہت طویل سفر کیا ہے اور کئی کارنامے بھی انجام بھی دیے ہیں۔ مگر سوال ہے کہ کیا دو سو ملین افراد کو پس پشت ڈال کر اور انکو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور انکو کسمپرسی کا إحساس دلا کر ملک کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا ہوسکتا ہے؟
خیر بطور ایک صحافی کے مجھ سمیت کئی صحافیوں کو شاہنواز حسین کا جشن عید، نقوی کا محرم کے موقع پر تقریب کا اہتمام کرنا اور سلمان خورشید کے گھر پر آموں کی دعوت یاد آتی رہیگی۔ میری تو یہی آرزو ہے کہ کب پرانا بھارت واپس لوٹ آئیگا، جو تکثیری معاشرہ کا آئینہ دار تھا۔
اس لیے میں آج کل فلم انمول رتن کے لیے شیلیند کا گانا گنگناتے رہتی ہوں۔
او میرے خوابوں کے محل، میرے سپنوں کے نگر
آج میں ڈھونڈوں کہا، کھو گئے جانے کدھر
کوئی لوٹا دے
میرے بیتے ہوئے دن
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔