یورپی یونین سمٹ، انسانی اسمگلرز کے خلاف فوجی کارروائی پر غور
23 اپریل 2015برسلز میں یورپی یونین کے اس ایک روزہ سربراہی اجلاس میں نہ صرف بحیرہٴ روم کے ذریعے سب سے پہلے اٹلی تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کے مسئلے کا جائزہ لیا جائے گا بلکہ اُن انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیوں پر بھی بات کی جائے گی، جو بھاری رقوم کے عوض ان انسانوں کو سمندری راستے سے یورپی سرزمین تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اٹلی اور افریقی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کے موضوع پر بھی تبادلہٴ خیال کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق آج کے اجلاس میں لیبیا میں موجود انسانی اسمگلروں کے گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی کے امکان پر بھی غور کیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آج کے اجلاس میں پیش کی جانے والی ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:’’یورپی رہنما ایسے منظم اقدامات پر غور کریں گے، جن کے ذریعے تارکین وطن کی کشتیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں قبضے میں لینے کے علاوہ انہیں اس پُر خطر سفر پر روانہ ہونے سے قبل ہی تباہ کرنا بھی شامل ہے۔‘‘
اس ہفتے کے آغاز پر اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی نے کہا تھا کہ لیبیا میں انسانی اسمگلرز کے خلاف محدود عسکری کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں ایک یورپی سفارت کار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر کہا:’’رینزی کی تجویز پر سنجیدگی سے غور نہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تاہم اس کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنا بھی لازمی ہے‘‘۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ یورپی یونین غیر قانونی ترک وطن کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی کا سہارا لے گی۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پناہ گزینوں سے متعلق یورپی یونین کی نئی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق برسلز میں یورپی رہنما جن منصوبوں پر بات کریں گے، اُن کا تعلق انسانی حقوق سے نہیں بلکہ سلامتی اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائیوں سے ہے۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ یورپی یونین کے ہنگامی اجلاس میں چار مختلف شعبوں سے متعلق ایک دس نکاتی منصوبے پر بات ہو گی۔ اس صورتحال میں ایمنسٹی اور ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نامی تنظیم نے بحیرہٴ روم میں نگرانی کا ایک کثیر الملکی آپریشن شروع کرنے پر زور دیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔
یورپی پارلیمان کے سربراہ مارٹن شُلز نے حکومتی اور ریاستی سربراہان پر پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ اس ہنگامی سربراہی اجلاس سے قبل انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا:’’یورپی یونین کے رکن ممالک کی حکومتیں گزشتہ کئی برسوں سے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق نہیں کر سکی ہیں‘‘۔ اس موقع پر انہوں نے تارکین وطن کے لیے یورپ میں داخل ہونے کے قانونی طریقے وضع کرنے کی بات کی:’’صرف یہی نہیں بلکہ افریقی ممالک کی سرحدوں کی نگرانی کو بھی بڑھانا چاہیے‘‘۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس تقریباً دو لاکھ بیس ہزار افراد نے بحیرہٴ روم کو پار کیا اور اس کوشش میں ساڑھے تین ہزار پناہ گزین ہلاک ہوئے۔ صرف رواں ماہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
اطالوی وزارتِ داخلہ نے بتایا ہے کہ بدھ بائیس اپریل کو مزید 1106 تارکینِ وطن اٹلی کے ساحلوں پر اترے، جس کے بعد اٹلی میں پناہ گزینوں کے لیے بنائے گئے مراکز میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد بڑھ کر ستر ہزار پانچ سو سات ہو گئی ہے۔
اس سال اب تک یورپ پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1750 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ گزشتہ سال کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً پانچ ہزار افراد یورپ پہنچنے کی کوشش میں ڈوب چکے ہیں۔ موجودہ رجحان جاری رہنے کی صورت میں اس سال کے آخر تک اموت کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
اطالوی حکام کا خیال ہے کہ شام، اریٹریا اور سب صحارا افریقہ سے کوئی ایک ملین انسان ابھی سے لیبیا پہنچ چکے ہیں، جو کسی بھی وقت بحیرہٴ روم کے راستے یورپ کے لیے اپنا سفر شروع کر سکتے ہیں۔