’یورپ پادریوں کی دو بیٹیوں کے ہاتھوں میں‘
13 جولائی 2016انگیلا میرکل اور ٹریزا مے نے اپنے اپنے ممالک کی قدامت پسند پارٹیوں میں اپنا لوہا منوایا اور سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ میرکل کو اقتدار میں آئے دس برس گزر چکے ہیں جبکہ انسٹھ سالہ مے تیرہ جولائی سے برطانوی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال رہی ہیں۔ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ ’بریگزٹ‘ کے بعد اب برطانیہ کا یورپ کے ساتھ کیا تعلق ہو گا، اس تناظر میں ان دونوں خواتین سیاستدانوں کا کردار انتہائی اہم ثابت ہو گا۔
ٹریزا مے کے ساتھ قربت میں کام کرنے والے ایک اعلیٰ جرمن سفارتکار کا کہنا ہے کہ مے ’انتہائی اصول پسند‘ سیاستدان ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل مے چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ رہ چکنے والے ایک انتہائی معتبر پادری کی بیٹی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کے فرانسیسی وزارت خارجہ سمیت متعدد یورپی ممالک کے ساتھ انتہائی اچھے تعلقات ہیں۔
دوسری طرف ایک برطانوی قدامت پسند سیاستدان دان نے ٹریزا مے کو ’انتہائی مشکل شخصیت‘ قرار دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد یورپی یونین سے کس طرح ڈیل کرتی ہیں۔ تھیریسا کا اہم سیاسی مقابلہ میرکل سے ہو گا، جو گزشتہ ایک دہائی سے اپنی سیاسی بصیرت کی بدولت کئی اہم میٹنگز میں یورپی سیاستدانوں کو لاجواب کر چکی ہیں۔
میرکل اور مے کئی عشروں سے ازدواجی زندگی سے وابستہ ہیں، ان دونوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مرد سیاستدانوں کے چیلنجز سے کس طرح نمٹنا ہے۔ سن دو ہزار پانچ کے انتخابات میں میرکل نے اپنے پس رو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان گیرہارڈ شروئڈر کو شکست دی تھی، اور جرمن چانسلر بننے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
ٹریزا مے گزشتہ چھ سالوں سے وزارت داخلہ سے منسلک تھیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی مستعفی ہونے کے بعد انہیں اس اہم عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ مے کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کا مطلب بریگزٹ ہے اور اسی طرح میرکل بھی برطانوی عوام کے اس فیصلے کا بھرپور احترام کرتی ہیں۔
تاہم میرکل برطانیہ کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کی خواہاں بھی ہیں۔ انہوں نے اس تناظر میں گیند مے کی کورٹ میں پھینکتے ہوئے کہا، ’’ہمیں ابھی انتظار کرنا چاہیے کہ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ کیسے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ جب یہ بات معلوم ہو جائے گی تو ستائیس رکنی یورپی یونین مشترکہ مفادات کے تحت مشاروت کا سلسلہ شروع کر دے گی۔‘‘
برطانیہ مصنوعات کے حوالے سے جرمنی کا پانچواں سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے لیکن برلن حکومت کی کوشش ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ سے مستقبل کے تعلقات پر مذاکرات میں یورپی یونین کے تمام ممالک کے مفادات اور تحفظات کو فوقیت دی جائے۔