’یورپ کو یورو کی ضرورت نہیں‘ زاراسین کی ایک اور متنازعہ کتاب
28 مئی 2012مشترکہ یورپی کرنسی یورو کے حوالے سے تھیلو زاراسین کی کتاب میں پیش کردہ خیالات نئے ہرگز نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہر شخص اس کتاب پر گفتگو کرتا نظر آتا ہے۔ اِس کتاب کی رونمائی بائیس مئی کو ہوئی اور تب سے اِس کتاب اور اِس کے مصنف کو میڈیا پر نمایاں انداز میں جگہ دی جا رہی ہے۔
زاراسین کا کہنا ہے کہ یورپی داخلی منڈی کو یورو سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ یورو کا اجراء مشترکہ یورپی مالیاتی پالیسیوں کے بغیر عمل میں آیا اور ایسے ملکوں کو بھی یورو زون میں شامل کر لیا گیا، جو اقتصادی شرائط پر پورا نہیں اترتے تھے۔ زاراسین نے یونانیوں کو یورو سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے۔ زاراسین کے خیال میں جرمنی کی طرف سے یونان کے لیے قرضوں کی ضمانتیں اس بات کی کھلی چھٹی ہیں کہ یونان مزید مقروض ہوتا چلا جائے۔ اُن کے خیال میں چانسلر انگیلا میرکل کا یہ بیان سیاسی محرکات کا حامل اور غلط ہے کہ یورو ناکام ہوا تو یورپ بھی ناکام ہو جائے گا۔
اِس کتاب کے چند ایک حصے بلاشبہ متنازعہ ہیں اور انہی کی وجہ سے میڈیا بھی زاراسین کو خوب نمایاں کر رہا ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ جرمنی کی طرف سے قرضوں کی ضمانتوں کے پیچھے ہولوکاسٹ یا دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے پایا جانے والا احساس ندامت کارفرما ہے۔ ایک اور جگہ وہ غیر مستحکم معیشتوں کے لیے ایک خاص طرح کی ’جنوبی ذہنیت‘ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
نفسیات دان مشائل گیسٹ مان کے خیال میں آج کل ہر طرف معلومات کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے، ایسے میں زاراسین نے متاثر کن حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے جان بوجھ کر عام ڈگر سے ہَٹ کر ایسے نظریات پیش کیے ہیں، جو رائے عامہ کو مشتعل کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں زاراسین متنازعہ معاملات، تعصبات اور خوف کے عمومی احساسات پر اپنی رائے آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں اور یوں توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔
برلن کے میڈیا اور سیاسیات کے ماہر رچرڈ شٹسے کے خیال میں صرف متنازعہ معاملات کو ہی موضوع بنا لینا کافی نہیں ہے۔ اُن کے خیال میں یورو کے حوالے سے زاراسین کے خیالات کو لوگ اس لیے بھی قابل توجہ سمجھ رہے ہیں کہ زاراسین برلن میں مالیاتی امور کے سینیٹر رہ چکے ہیں اور جرمنی کے مرکزی بینک میں اعلیٰ عہدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ماضی میں بھی مالیاتی امور پر مضامین لکھتے رہے ہیں۔
مشائل گیسٹ مان کے خیال میں اگر زاراسین کی کتاب توجہ حاصل کر رہی ہے تو اس میں ذرائع ابلاغ اور اُن سے استفادہ کرنے والے صارفین کا بھی ہاتھ ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کرنے والے ذرائع ابلاغ جانتے ہیں کہ زاراسین کے بارے میں اُن کی رپورٹنگ کو لوگ زیادہ دلچسپی سے دیکھیں گے۔ ایسے میں میڈیا اِس کتاب کی ایسی باتوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے، جو کتاب میں محض سرسری طور پر بیان کی گئی ہیں۔
C. Ruta / aa / mm