یونان کے پناہ گزین کیمپ سے مدد کی پکار
22 فروری 2021
یونانی جزیرے لیسبوس میں قائم کارا ٹیپ عارضی مہاجر کیمپ میں دو خیمے جل گئے۔ اس بارے میں ایک انسٹا گرام اکاؤنٹ کی طرف سے حال ہی میں پوسٹ ہونے والی ویڈیو نے دل دہلا دینے والے مناظر عام کیے۔ ویڈیو میں جائے وقوعہ پر یو این ایچ سی آر کے سفید خیموں اور مہاجرین کے خیمے کے درمیان سیاہ دھوئیں میں خواتین کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ یہ مدد کے لیے آوازیں دے رہی ہیں۔ منظر عام پر آنے والی یہ ویڈیو علی نامی ایک شخص نے بنائی، جس میں وہ کہتے ہیں، ''لیسبوس کے دوسرے میں بھی آگ لگ گئی۔ دو خیمے نذر آتش ہو گئے۔ نہ یہ پہلی نہ ہی آخری بار ہو رہا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کیونکہ حکومت بالکل غافل ہے۔ مہاجرین کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔‘‘
موریا اور لیسبوس کے نئے کیمپ کارا ٹیپ کے پناہ گزین نہ صرف انسٹا گرام بلکہ دیگر پلیٹ فارمز پر بھی کیمپوں کی دیگر گوں صورتحال پر توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کیمپوں اور خیموں تک صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس اعتبار سے انسٹا گرام پر پوسٹ ہونے والی یہ حالیہ ویڈیو واحد ذریعہ ہے ان کیمپوں کے حالات زندگی معلوم کرنے کا۔
بے بس پناہ گزین اور سردی کی شدید لہر
گزشتہ ہفتے یورپ بھر کو شدید سردی اور برف باری نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ تاہم یونانی جزیروں پر موسم سرما کی یہ شدت غیر متوقع تھی۔ یہ مہاجر کیمپوں کے رہائشیوں کے لیے ایک نئی آفت ثابت ہوئی۔ لیسبوس جزیرے میں طوفانی جھکڑ، ژالہ باری اور برف باری کے سبب خیمے اڑ گئے اور کچی مٹی کا فرش کیچڑ بن گیا جس میں خیمے دھنستے چلے گئے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کو ٹویٹ پر مطلع کیا گیا کہ سردی کی شدید لہر نے یونان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور پناہ کے متلاشی افراد جو ساموس، لیسبوس اور چیوس میں قائم کیمپوں یا خود ساختہ خیموں میں سر چھپائے ہوئے تھے، ایک المیے کی صورتحال سے دوچار ہو گئے ہیں۔ درجہ حرارات انجماد کی سطح سے کہیں نیچے پہنچ چکا ہے اور بے بس پناہ گزین سردی میں جم رہے ہیں۔
موریا کیمپ کے مہاجرین کی عارضی خیمہ بستیوں میں منتقلی
کاراٹیپ مہاجر کیمپ
یونانی جزیرے لیسبوس پر اس وقت قریب 15 ہزار مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں، جن میں سے نصف تعداد کارا ٹیپ کے عارضی کیمپ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ یہ کیمپ دراصل گزشتہ برس ستمبر میں موریا کیمپ میں آگ لگنے کے بعد کھڑا کیا گیا تھا۔ یہ عین ساحل پر واقع ہے، جس کے سبب اس کیمپ کے مہاجرین کو آئے دن طوفانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موریا کیمپ میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد سے یہاں کے خیموں میں رہنے والے افراد کے خود کھانا پکانے پر پابندی عائد ہے۔ کیمپوں کے رہائشیوں کو کھانا فراہم کرنے کا کام یونانی فوجی انجام دیتے ہیں۔
کارا ٹیپ کا نیا کیمپ خار دار باڑوں سے گھرا ہوا ہے اور اس کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے۔ اس میں لگ بھگ ڈھائی ہزار نابالغ پناہ گزین بھی رہ رہے ہیں۔ کورونا بحران کے سبب یہاں سخت لاک ڈاؤن بھی چل رہا ہے۔ خیمے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں، ٹائلٹ اور نہانے کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ یہ خیمہ بستی بارش اور طوفان سے محفوظ بھی نہیں ہے۔ امدادی تنظیم کاریتاس لیسبوس جزیرے پر مہاجر کیمپوں کی نا گفتہ بہ صورتحال کو یورپ کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کی ناکامی اور ناقص ہونے کا مُنہ بولتا ثبوت قرار دے چُکی ہے۔
بدنام زمانہ موریا کیمپ میں مہاجر خواتین کی عذاب زندگی
کاریتاس نے کارا ٹیپ کیمپ کے مہاجرین کے لیے ٹائلٹس بنائے ہیں۔ یہ تنظیم مہاجر کیمپ میں کھانا اور کمبلیں تقسیم کرتی ہے نیز ان مہاجرین کے لیے انگریزی زبان سکھانے کے لیے اسباق کا بھی بندوبست اسی تنظیم نے کیا ہے اور مسائل سے دوچار ان مہاجرین کو نفسیاتی نگہداشت اور مشاورت فراہم کرنے کا بندو بست بھی کیا ہے۔
دسمبر میں یہاں شدید سیلاب آ چُکا ہے اور لیسبوس میں چند ماہ پہلے لگائے گئے مہاجر خیمے زیر آب ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں یونانی حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُس نے کارا ٹیپ کیمپ کی زمین کے کچھ حصوں میں سیسہ استعمال کیا ہے، جو صحت کے لیے نہایت مُضر ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس سلسلے میں جو جائزہ رپورٹ شائع کی اُس کے مطابق یونانی حکومت کے پاس گزشتہ سات ہفتوں سے اس بارے میں رپورٹ پڑی ہے جس میں کارا ٹیپ کیمپ میں رہنے والے بچوں کے بلڈ ٹیسٹ اور اس کیمپ کی زمین کی آلودگی کی جانچ پر مبنی ٹیسٹ کی رپورٹ شامل ہے۔ اب تک حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور اس وقت اس کیمپ کے مکینیوں کو لاحق خطرات کو بہت کم کر کے پیش کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔
'موریا کیمپ میں مقیم مہاجرین نفسیاتی مسائل کا شکار‘
جرمنی کے اقدامات
دریں اثناء وفاقی جموریہ جرمنی نے لیسبوس جزیرے پر پناہ لیے ہوئے مہاجرین کے مزید خاندانوں کو اپنے ہاں بلوا لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک ہوائی جہاز 26 مہاجر کنبوں کو لے کر جرمن شہر ہنوور پہنچا۔ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق مہاجرین کے اس گروپ میں 53 بالغ پناہ گزین اور 63 بچے شامل ہیں۔ گزشتہ سال مارچ سے اب تک لیسبوس جزیرے سے مجموعی طور پر ایک ہزار چھ سو ستتر افراد جرمنی آ چُکے ہیں۔
اُدھر یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ اُس نے رواں سال اپریل تک لیسبوس سے پناہ گزین کنبوں کی منتقلی کے لیے اپنی مالی اعانت میں اضافہ کیا ہے۔ جن یورپی ممالک نے جرمنی کی طرح مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے، ان میں فرانس، بیلجیم، بلغاریہ،کروشیا، فن لینڈ، آئر لینڈ، پرتگال، سیلووینیا، ہالینڈ، ناروے اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔
آسٹرڈ پرانگے ڈے او لیویرا/ ک م/ اا