یوکرائن اور روس کی جنگ سے مشرق وسطیٰ کیسے متاثر ہو گا؟
17 فروری 2022حالیہ دنوں میں یوکرائن کا بحران کچھ ٹھنڈا ہوتا دیکھائی دیا تاہم بدھ کے دن اس حوالے سے خدشات پھر بڑھ گئے کہ روس اپنے اس ہمسایہ ملک پر حملہ کر سکتا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد کے سربراہ ژینس اشٹولٹن برگ نے بدھ کے دن کہا کہ روس کی جانب سے یوکرائنی سرحد سے فوجی دستوں کی واپسی کے اعلانات فقط دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے والے دعوے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دعوؤں کے برخلاف روس نے مزید سات ہزار فوجی یوکرائنی سرحد پر پہنچائے ہیں۔
روس کی جانب سے رواں ہفتے کے آغاز پر ایسے اشارے دیے گئے تھے کہ وہ یوکرائنی سرحد سے کچھ فوجی دستے واپس بلا رہا ہے۔ ژینس اشٹولٹن برگ نے روس کی جانب سے معاملے کے سفارتی حل کی خواہش کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم کہا ہے کہ روس نے اب تک یوکرائنی سرحد سے فوجی دستوں کی واپسی کا کوئی عملی اشارہ نہیں دیا ہے۔
یوکرائن اور روس کے مابین مسلح تنازعہ نہ صرف یورپ کو متاثر کرے گا بلکہ اس سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کا خطہ بھی بری طرح متاثر ہو گیا۔
لیبیا
یوکرائن میں جنگ کی وجہ سے سب زیادہ متاثر لیبیا ہو گا۔ سکیورٹی تجزیہ نگار سمیع حمدی کے مطابق روس نے لیبیا کے ضلع الجفرہ میں ایک ایئر بیس بنا رکھی ہے، اگر یہ جنگ شروع ہوئی تو ماسکو حکومت الجفرہ ایئر بیس کو فوری طور پر فعال بنا سکتا ہے۔
سمیع حمدی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ لیبیا کا داخلی تنازعہ ہی ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے اور اگر یوکرائن اور روس کی جنگ ہوئی تو اس کے اثرات اس شمالی افریقی ملک کو زیادہ ابتر بنا دیں گے۔
سیاسی تجزیہ نگار سنزیا بیانکو کا کہنا ہے کہ روس مغربی مالک پر دباؤ ڈالنے کی خاطر لیبیا سے مہاجرین کا ایک نیا سیلاب یورپ کی طرف موڑ سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر جوا ہوا ہے، وہ یہاں بھی ہو سکتا ہے۔
شام
روس کی افواج شام میں بھی تعینات ہیں۔ بالخصوص طرطوس کی بندرگاہ میں روس کی بحریہ نے ایک اڈہ بنا رکھا ہے۔ ماسکو حکومت اپنے اہم اتحادی ملک شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھا سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار سنزیا بیانکو کے مطابق شام میں روس کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔ اس خطے میں سمندری راستے سے جتنی بھی امداد جاتی ہے، وہ شام سے ہو کر دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی ہے۔ بیانکو کو کہنا ہے کہ روس نے یہ امداد روک دی تو مہاجرین کا ایک طوفان یورپ کے لیے نکل کھڑا ہو گا۔
اسرائیل
شام کا ہمسایہ ملک اسرائیل بھی یوکرائن اور روس کے مابین جاری تناؤ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیلی فورسز شام میں ایرانی فوجی تنصیات کو نشانہ بنا رہی ہیں، جبکہ روس نے ابھی تک اس بارے میں اپنی آنکھیں بھینچ رکھی ہیں۔
تاہم یوکرائن اور روس کے تنازعے کی صورت میں اگر مغربی ممالک نے ایکشن لیا تو روس شام میں اس حوالے سے بھی کوئی ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی یوکرائنی وزیر خارجہ نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ کی صورت میں اس کے منفی اثرات اسرائیل پر بھی پڑیں گے۔ ان میں ایک تو یوکرائنی یہودی آبادی کا اسرائیل کی طرف رخ ہو گا جبکہ دوسرا گندم کی ایکسپورٹ میں کٹوتی۔
جزیرہ نما عرب
یوکرائن اور روس کی جنگ کے منفی اثرات جزیرہ نما عرب پر بھی پڑیں گے، بالخصوص امریکا کے قریبی اتحادی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر۔
سمیع حمدی کے مطابق سعودی عرب اوپیک میں اپنی اجار داری قائم رکھنے کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے جبکہ اس نے روس کے ساتھ عسکری تعاون کا ایک سجھوتا بھی کر رکھا ہے۔ کسی تنازعے کی صورت میں سعودی عرب امریکا کا ساتھ دے گا یا روس کا، یہ ریاض حکومت کے لیے ایک درد سر بن سکتا ہے۔
دوسری طرف یمن کا تنازعہ بھی جاری ہے، جہاں سعودی عسکری اتحاد ایران نواز باغیوں کے خلاف فعال ہے۔ اس خطے میں ایران کے اثرورسوخ کے خدشات بھی ہیں، جو روس کا اہم اتحادی ہے۔ اس حوالے سے کریملن یوکرائن کے ساتھ جنگ کی صورت مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی خاطر اپنا یہ کارڈ بھی استعمال کر سکتا ہے۔