یوکرائن صدارتی انتخابات: وکٹر یانوکووچ کی ’جیت‘
8 فروری 2010یوکرائن کے مرکزی انتخابی کمیشن کے نتائج کے مطابق وکٹر یانوکووچ کے حق میں 48.49 فیصد جبکہ ان کی قریبی حریف اور وزیر اعظم یولیا تیموشینکو کی حمایت میں 45.86 فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اب تک نوے فیصد سے زائد ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔
وکٹر یانوکووچ نے اتوار کے روز ہی اپنی جیت کے یقین کا اظہار کرتے ہوئے یولیا تیموشینکو کو وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کو کہا تھا۔’’آج کے دن سے یوکرائن کے لئے نیا راستہ کھلا ہے، تبدیلی اور ترقی کا راستہ۔‘‘ وزیر اعظم تیمو شینکو نے تاہم کہا تھا کہ حتمی نتائج اخذ کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کیا۔’’حتمی نتائج پر پہنچنا ابھی صحیح نہیں ہے۔‘‘
یوکرائن کے مرکزی الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں تقریباً 37 ملین رائے دہندگان ہیں۔ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹر ٹرن آوٴٹ 70 فیصد سے زائد رہا جبکہ جنوری میں الیکشن کے پہلے مرحلے میں ٹرن آوٴٹ اس سے تقریباً تین فیصد کم رہا تھا۔
یوکرائن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روس یوکرائن میں اقتدار کی تبدیلی کا کئی برسوں سے انتظار کر رہا تھا۔ اپوزیشن رہنما وکٹر یانوکووچ کو ماسکو کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔
روسی ذرائع ابلاغ یوکرائن کے صدارتی انتخابات، ووٹنگ، گنتی کے عمل، نتائج اور حالات حاضرہ پر کئی رپورٹوں، تجزیوں اور تبصروں سے بھرے پڑے تھے۔ اتوار اور پیر کو جب یہ واضح ہونے لگا کہ وکٹر یانوکووچ الیکشن جیت کر اقتدار سنبھال سکتے ہیں تو روس میں حکومت کے حامی اخبارات میں ماسکو اور کی ایف کے درمیان تعلقات کے نئے دور کے آغاز پر اداریے لکھے گئے۔
دریں اثناء ووٹنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی یولیا تیموشینکو کے حامیوں نے ملک کے مشرقی حصے میں تقریباً ایک ہزار پولنگ مراکز پر انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں، ڈبل ووٹنگ اور رشوت کے عوض ووٹ ڈالنے جیسے الزامات عائد کئے۔ یوکرائن کے مشرقی حصے Donetsk میں سابق وزیر اعظم وکٹر یانوکووچ ووٹرز میں بہت مقبول ہیں اور اس علاقے میں ان کی جماعت کا خاصا اثر ہے۔
انتخابی مہم کے دوران دونوں ہی اہم رہنماوٴں نے ماسکو کے ساتھ اچھے تعلقات اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ سن 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرائن کو آزادی نصیب ہوئی۔ یوکرائن میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت روسی زبان بولتی ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: مقبول ملک