یورپ کے سب سے بڑی ایٹمی بجلی گھر میں آگ پر قابو پا لیا گیا
4 مارچ 2022یوکرین پر روسی حملہ اب نویں دن میں داخل ہو چکا ہے۔ اس دوران گولہ باری کے سبب یوکرین کے زپوریشیا پلانٹ میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا، جس پر اب قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے تابکاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ زپوریشیا پلانٹ یورپ میں جوہری بجلی کا سب سے بڑا پلانٹ ہے۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام جوہری پلانٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے جہاں روسی گولہ باری کے بعد پلانٹ کے بیرونی حصے میں واقع ایک تربیتی حصے میں آگ لگ گئی تھی۔
جوہری امور کے عالمی نگراں ادارے آئی اے ای اے اور وائٹ ہاؤس دونوں کا ہی کہنا ہے کہ وہ یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ پر حملے کی فعال طریقے سے نگرانی کر رہے ہیں اور تابکاری کی سطح میں ابھی تک کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''روسی فوج یورپ کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ پر چاروں طرف سے فائرنگ کر رہی ہے۔ آگ تو پہلے ہی بھڑک چکی ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر اس میں کوئی دھماکہ ہوا تو یہ چرنوبل سے بھی دس گنا زیادہ بڑا ہو گا! روسیوں کو فوری طور پر فائرنگ بند کرنی چاہیے، فائر فائٹرز کو اجازت دینی چاہیے اور ایک سکیورٹی زون قائم کرنا چاہیے''!
وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے اپنی متعدد ٹویٹ میں بتایا ہے کہ جوہری پلانٹ میں آگ لگنے کے معاملے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے یوکراینی ہم منصب وولودیمیر زیلنسکی سے فون پر بات چیت بھی کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن نے امریکی محکمہ توانائی کے انڈر سیکریٹری برائے نیوکلیئر سکیورٹی اور نیشنل نیوکلیئر سکیورٹی ایڈمنسٹریشن کے ایڈمنسٹریٹر سے بھی بات کی تاکہ پلانٹ کی صورتحال کے بارے میں تازہ ترین معلومات حاصل کی جا سکے اور صدر کو اس بارے میں بریف کیا جا رہا ہے۔
پلانٹ کے ایک ترجمان نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ روسی افواج کو ''بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ روک دینی چاہیے۔ '' ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، ترجمان اینڈری توز نے ٹیلی گرام پر اپنے ایک ویڈیو پوسٹ میں کہا، ''یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی توانائی اسٹیشن میں جوہری خطرے کے حقیقی خدشات ہیں۔''
یوکرین روس بحران کہاں پر ہے؟
عالمی پیمانے پر مذمت اور مغرب کی جانب سے وسیع تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود جمعرات کے روز روس نے یوکرین پر حملوں کو جاری
رکھنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ فی الوقت یوکرین میں ان کے ملک کا 'آپریشن‘ جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی امن معاہدے میں یوکرین کو ''غیر مسلح کرنے'' کی شرط لازمی ہے۔
اس دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین میں لڑنے والے روسی فوجیوں کی ''بہادری'' کو سراہتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ ان کے، ''منصوبے کے مطابق چل رہی ہے۔'' انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے یوکرین کی افواج پر انسانوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔
دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ پوٹن سے روبرو ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مغربی ممالک نو فلائی زون نافذ کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو انہیں یوکرین کو جنگی طیارے فراہم کرنا چاہیے تاکہ ان کا ملک روس سے لڑ سکے۔
'یورپ کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے'
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ٹیلی گرام پر اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں کہا، ''یورپ کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔'' انہوں نے کہا، ''میں تمام یوکرینیوں، تمام یورپیوں اور ہر اس شخص سے مخاطب ہوں جو چرنوبل لفظ سے واقف ہیں۔ وہاں سے دسیوں ہزار کو نکالنا پڑا تھا اور
روس اسے دہرانا چاہتا ہے، بلکہ پہلے ہی سے دہرا رہا ہے، تاہم یہ اس سے چھ گنا زیادہ بڑا ہے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے پاس 15 جوہری ری ایکٹر ہیں اور ''اگر کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو اس سے سبھی کا خاتمہ ہو گا۔ یورپ کو ایٹمی تباہی میں مرنے سے بچا لیں۔''
برطانیہ نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا
ادھر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے یوکرین کی جنگ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اور ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ پوٹن، ''پورے یورپ کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی،ڈی پی اے)